دھواںخاموش ہے!

 پشاور کے گنجان آباد رہائشی و تجارتی علاقے ’ٹھنڈا کھوئی‘ میں ہوئی آتشزدگی نے اپنے پیچھے کئی اسباق چھوڑے ہیں‘ جن پر غور کیا جائے تو آئندہ سانحے کی شکل اختیار کرنے والے ایسے حادثات پر باآسانی قابو پانے کے علاوہ اِن کے وقوع پذیر ہونے کو روکا بھی جا سکے گا۔ 9 اگست کی مذکورہ آتشزدگی کا سب سے افسوسناک پہلو 2 افراد (10سالہ بچی اور ایک معذور شخص) کی موت ہے۔ اِس ناقابل تلافی جانی نقصان اور چھ زیادہ زخمیوں اور پانچ معمولی زخمیوں میں سے ایک کی حالت تشویشناک بتائی جا رہی ہے۔ آگ کی شدت کا اندازہ اِس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ زخمیوں میں 3 ریسکیو اہلکار بھی شامل ہیں‘ جنہیں اِس بات کی خصوصی تربیت حاصل ہوتی ہے کہ وہ مشکل حالات میں سب سے پہلے اپنی اور بعد میں دوسروں کی زندگیاں بچانے کی کوشش کرتے ہیں۔ آگ اِس قدر جلد یعنی دیکھتے ہی دیکھتے پھیلی کہ مکان کی بالائی منزل سے 2 خواتین کو چھلانگ لگا کر اپنی جان بچانا پڑی‘ جو زخمیوں میں شامل ہیں۔ مجموعی طور پر آتشزدگی سے 6 زخمی متاثرین میں شامل ایک کو ”برن سنٹر“ منتقل کیا گیا جبکہ سیاسی‘ سماجی اور صحافتی حلقوں کی جانب سے بارہا توجہ دلانے کے باوجود بھی پشاور شہر میں آگ سے جلنے والوں کے خصوصی ہسپتال نہیں بنایا جا سکا ‘ لمحہ¿ فکریہ ہے کہ پورے صوبے میں جلے ہوئے مریضوں کےلئے حکومت کی زیرنگرانی علاج گاہ موجود نہیں۔ دستیاب وسائل و سہولیات سے تین قسم کے جلنے والوں میں سے صرف ابتدائی قسم کے جلنے والوں کا علاج ہی ممکن ہو سکتا ہے۔

 جبکہ شدید جل جانے والے مریضوں کو صوبہ پنجاب کے نجی یا سرکاری علاج گاہوں میں منتقل کیا جاتا ہے۔ ٹھنڈا کھوئی آتشزدگی ’ٹھنڈا‘ ہونے کے بعد ابتدائی تحقیقات کے مطابق 1: آگ بجلی کے شارٹ سرکٹ کی وجہ سے لگی‘جو اندرون شہر کے صرف قدیمی ہی نہیں بلکہ نئے گھروں کا بھی مسئلہ ہے۔ پہلی بات: اندرون شہر کا فن تعمیر کسی بھی ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔ بالخصوص و بالعموم کم قیمت ایسی تاریں اِستعمال کی جاتی ہیں جو گھر کی ضرورت کے مطابق بجلی کا ترسیلی بوجھ اُٹھانے کی سکت نہیں رکھتیں۔ دوسری بات: فیوز اور سرکٹ بریکرز نصب نہیں کئے جاتے یا پھر غیرمعیاری اور حسب دباو¿ اِن کا انتخاب نہیں کیا جاتا۔ اِن دونوں امور کا تعلق بجلی کے تقسیم کار ادارے پیسکو (PESCO) کی کارکردگی سے بھی ہے جس کے متعلقہ اہلکاروں کو حسب قواعد بجلی کا نیا کنکشن دینے سے قبل گھر کے اندر ہوئی وائرنگ کا جائزہ لینا چاہئے۔ قدیم تعمیرات میں زیادہ تر لکڑی کا استعمال ملتا ہے‘ اِسلئے خراش زدہ تاروں کو پلاسٹک سے وقتی طور پر ڈھانپنے کے بعد اِنہیں ایک دوسرے سے بظاہر جوڑ تو دیا جاتا ہے اور یہ جوڑ نظروں سے اوجھل بھی کر دیئے جاتے ہیں لیکن محفوظ نہیں ہوتے اور اِن سے بجلی کے زیادہ استعمال کی صورت اکثر چنگاڑیاں اُٹھتی ہیں پا پھر بجلی کی ترسیل کا دباو¿ برداشت نہ کرنے والی تاریں گرم ہو کر اپنے اُوپر لگے پلاسٹک کے خول کو پگھلا دیتی ہیں اور یہ محرکات آتشزدگی کا باعث بنتے ہیں۔

 2: ٹھنڈا کھوئی کے علاقے میں تنگ و تاریک گلیوں کی وجہ سے آگ پر قابو پانے میں مشکلات پیش آئیں کیونکہ آگ بجھانے والا عملہ اور اِمدادی سازوسامان جائے وقوعہ پر پہنچانا آسان نہیں تھا۔ 3: ٹھنڈا کھوئی کے متاثرہ مکان کی نچلی منزل بطور گودام استعمال کی جا رہی تھی جہاں جوتا سازی کی صنعت میں استعمال ہونے والی ضروریات (چمڑا‘ پلاسٹک‘ دھاگہ‘ پیٹرولیم پر مشتمل مصنوعات) ذخیرہ رکھی جاتی تھیں اور آگ لگنے سے ایک دن قبل گودام کو بھرا گیا تھا‘ جس کے باعث آگ کی شدت میں دیکھتے ہی دیکھتے اِس قدر اضافہ ہوا کہ اپنی مدد آپ کے تحت مقامی افراد اور بعدازاں آگ بجھانے والوں کی کوششوں سے بھی آگ پر اُس وقت تک قابو نہ پایا جا سکا جب کہ سب کچھ جل کر خاکستر نہیں ہو گیا۔ اندرون شہر رہائشی اور تجارتی علاقوں میں تمیز ممکن نہیں رہی۔ گلی کوچوں میں کثیرالمنزلہ تجارتی عمارتیں راتوں رات تعمیر نہیں ہوئیں بلکہ ذمہ دار اہلکاروں کی ملی بھگت سے پشاور میں زندگی کا حسن ماند ہو چکا ہے۔ المیہ یہ ہے کہ ایک حادثے کے ذکر سے دوسرے حادثے کے انتظار تک‘ فیصلہ سازی کی سطح پر نہ تو خاطرخواہ غوروخوض ہوتا ہے اور نہ ہی اُن دانستہ و غیردانستہ غلطیوں سے جنم لینے والے حادثات کی روک تھام کےلئے منصوبہ بندی کی جاتی ہے۔ یہی سبب ہے کہ ہر حادثے کی طرح ٹھنڈی کھوئی آتشزدگی سے اُٹھنے والا دھواں بھی خاموش ہے۔