سپریم کورٹ اور لا اینڈ جسٹس کمیشن نے زیر التوا مقدمات کے اعدادوشمار جاری کردئیے ہیں جس کے مطابق ملک بھر کی عدالتوں میں زیر التوا مقدمات کی تعداد20لاکھ سے تجاوز کرگئی ہے سپریم کورٹ میں زیر التوا مقدمات کی تعداد 45 ہزار سے زائد ہوچکی ہے اسلام آباد ہائیکورٹ میں 15 ہزار 847، لاہور ہائیکورٹ میں ایک لاکھ 88ہزار 411،سندھ ہائی کورٹ میں 84 ہزار 341مقدمات، پشاور ہائیکورٹ میں 38 ہزار 464اور بلوچستان ہائیکورٹ میں 5 ہزار 313مقدمات زیر التوا ہیں۔ رپورٹ کے مطابق پنجاب کی ماتحت عدلیہ میں 12 لاکھ 87 ہزار 121 مقدمات، سندھ میں ایک لاکھ 5ہزار 458 ،خیبر پختونخوا میں دو لاکھ دس ہزار 25 ، بلوچستان کی ماتحت عدلیہ میں 17 ہزار اور اسلام آباد کی ماتحت عدلیہ میں 43 ہزار 924 مقدمات زیر التوا ہیں۔ان بیس لاکھ زیر التوا مقدمات میں دیوانی، فوجداری، سیاسی، دہشت گردی اور کرپشن کے مقدمات شامل ہیں۔فوجی عدالتوں، نیب کورٹس، سروسز ٹریبونل، آئی ٹی این ای اور اپیلٹ کورٹس میں زیرالتواءمقدمات اس کے علاوہ ہیں۔اگر ہر عدالت روزانہ کم از کم پانچ مقدمات بھی نمٹادے تو تمام زیرالتوا مقدمات کے فیصلے ہونے میں کئی سال لگ سکتے ہیں، کہا جاتا ہے کہ انصاف کرنے میں تاخیر انصاف سے انکار کے مترادف ہے۔
اگر مقدمات کے فیصلے ہونے میں تاخیر ہوتی ہے تو کچھ باعث تاخیر بھی ہے۔ معاہدہ عمرانی، ملکی آئین اور سیاسی جماعتوں کے منشور کے مطابق عوام کو فوری اور سستے انصاف کی فراہمی حکومت کی اولین ترجیح ہوتی ہے۔ پھر عدالتوں پر مقدمات کا اتنا سارا بوجھ پڑنے اور عوام کو انصاف کے حصول مشکلات کی بنیادی وجہ کیا ہے۔ کچھ لوگوں کی رائے ہے کہ عدالتوں اور ججوں کی تعداد کم ہے ججوں کی تنخواہیں اور مراعات بھی مناسب نہیں ہیں ۔بنیادی مسئلہ ججوں کی تعداد ، انفراسٹریکچر اور سہولیات کی کمی کا نہیں، عدالتی نظام میں موجود خامیاں ہیں۔کسی جج کے سامنے عدالت کے اندر کسی کا قتل ہوجائے تو مدعی کی طرف سے ٹھوس شواہد اور ثبوت پیش کئے بغیر جج اپنے چشم دید واقعے کا فیصلہ نہیں دے سکتا۔جہاں تک ججوں کی تنخواہوںو مراعات اور عدالتوں کے بجٹ کا تعلق ہے۔ وہ انصاف کی راہ میں حائل نہیں، 2008میں چیف جسٹس آف پاکستان کی تنخواہ دو لاکھ روپے ماہانہ تھی آج ان کی تنخواہ بارہ لاکھ ہے۔بارہ سال قبل سپریم کورٹ کا بجٹ 31کروڑ 50لاکھ تھا، آج ایک ارب 96کروڑ 60لاکھ ہے۔ سپریم کورٹ نے رواں سال جون میں 260مقدمات کے فیصلے کئے اس دوران 446نئے مقدمات دائر کئے گئے۔ایک سال کے دوران ماتحت عدالتوں میں ایک لاکھ 30ہزار مقدمات کے فیصلے کئے گئے اس دوران ایک لاکھ 65ہزار نئے مقدمات ماتحت عدالتوں میں دائر کئے گئے۔
عدالتی نظام میں جھول کی وجہ سے دیوانی مقدمات چالیس پچاس سالوں تک چلتے رہتے ہیں اگر پانچ مرلے کے رہائشی پلاٹ کا مقدمہ عدالت میں چلا جائے تو سول کورٹ میں چار پانچ سال بعد جب اس کا فیصلہ آتا ہے تو سیشن کورٹ میں فیصلے کے خلاف اپیل دائرکی جاتی ہے وہاں سے دوتین سال بعد فیصلہ آجائے تو دوسرا فریق ہائی کورٹ چلا جاتا ہے ہائی کورٹ سے پانچ چھ سال بعد فیصلہ آجائے تو ہارنے والا فریق سپریم کورٹ میں اپیل دائر کرتا ہے اور وہاں سے آٹھ دس سال بعد جب فیصلہ آتا ہے تو پلاٹ کا حق دار اس کی مالیت سے پانچ سو گنا عدالتی چارہ جوئی پر خرچ کرچکا ہوتا ہے۔دادا جب حصول انصاف کے لئے عدالت سے رجوع کرتا ہے تو اس کے پوتے اور پڑپوتے کے دور میں جاکر فیصلہ آتا ہے تب تک انصاف کا قتل ہوچکا ہوتا ہے اور اس کی تجہیز و تکفین بھی ہوچکی ہوتی ہے۔ موجودہ حکومت نے نظام میں اصلاحات کو اپنے منشور میں سرفہرست رکھا ہے۔انصاف کی فراہمی کے نظام میں اصلاحات حکومت کی اولین ترجیح ہونی چاہئے۔ وزیر انصاف و قانون، ججوں اور سینئر وکلاءکی مشاورت سے ایسا نظام انصاف متعارف کرایا جائے جس میں عوام کو فوری اور سستا انصاف ہوتا ہوا نظر آجائے۔ بہتر ہوگا کہ دیوانی ، مالی اور سیاسی مقدمات موجودہ عدالتوں کے سپرد کئے جائیں اور فوجداری مقدمات کے لئے سرسری سماعت کی خصوصی عدالتوں کا قیام عمل میں لایاجائے اور انہیں نوے دنوں کے اندر فوجداری مقدمات کے فیصلے کرنے کا پابند بنایاجائے۔پاکستان پینل کوڈ میں بھی عصر حاضر کے تقاضوں اور اسلامی قانون کے مطابق ترامیم کی جائیں اور عدالتوں میں اسلامی نظام انصاف کو رائج کرنے کے اقدامات کئے جائیںتاکہ مقدمات کے جلد فیصلے بھی ہوسکیں اور فیصلوں میں انصاف کے تقاضے بھی پورے ہوسکیں۔