پشاور کی آبادی ہر سال بڑھ رہی تھی اور اِس کے دیگر وسائل پر بوجھ کی طرح پبلک ٹرانسپورٹ کا شعبہ ایک عرصے سے محروم و نظرانداز تھا۔ یہ امر بھی لائق توجہ ہے کہ ہر قومی اور صوبائی سیاسی جماعت نے پشاور سے وعدے کئے لیکن اِس شہر کو عملاً خاطرخواہ اہمیت نہیں دی گئی‘پشاور کی فیصلہ سازی تحریک انصاف کے رہنماو¿ں کی صورت ایسے افراد کے ہاتھ میں آئی جن کے لئے انتخابی حلقوں کی سیاست ترجیح نہیں تھی بلکہ ’کپتان کی ٹیم کے ہر کھلاڑی‘ نے سیاسی وابستگیوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے پشاور کے حقوق کی ادائیگی کا فیصلہ کیا۔ بی آر ٹی اِسی خواب اور عزم کی تکمیل کا نام ہے‘ جس کے لئے اہل پشاور صرف تحریک انصاف ہی نہیں بلکہ دیگر صوبوں سے تعلق رکھنے والوں کے بھی شکرگزار ہیں‘ جنہوں نے پشاور سے اپنی محبت کا اظہار کیا اور ’تحریک انصاف‘ کے فلیگ شپ منصوبے کو معطل کرنے کی سازشوں کو ناکام بنایا۔ سرتوڑ کوشش کی گئی کہ 2013ءسے 2018ءتک تحریک انصاف کے پہلے دور حکومت میں شروع کئے گئے ’بی آر ٹی منصوبے‘ کو عوام کی نظروں میں مشکوک بنا دیا جائے اور اِس سلسلے میں ایڑی چوٹی کا زور لگاتے ہوئے کئی تکنیکی داو¿ پیچ بھی کھیلے گئے لیکن بالآخر ’بی آر ٹی بالآخر مکمل ہو چکا ہے اور آج وزیراعظم عمران خان اِس کا افتتاح کریں گے جبکہ چودہ اگست کے تاریخ ساز اور مبارک دن سے اہل پشاور میٹرو بس سے استفادہ کر پائیں گے۔ پبلک ٹرانسپورٹ میں ذلت‘ گھٹن اور نفسیاتی دباو¿ برداشت کرنے والے کمزور طبقات کو باعزت آمدورفت کا وسیلہ میسر آنا کسی بھی طرح معمولی نہیں جس کا چرچا اور تعریف جس قدر بھی کی جائے کم رہے گی۔ ’پشاور میٹرو بس‘ پشاور کے معاشی‘ سماجی‘ تعلیمی‘ سیاحتی اور صحت کی شعبے میں انقلاب کا پیش خیمہ ثابت ہوگی۔
وقت ہے کہ آج ’پشاور میٹرو بس‘ کے افتتاح پر اظہار مسرت و تشکر کرتے ہوئے ’جنرل ٹرانسپورٹ سروس (جی ٹی ایس)‘ کو بھی یاد کیا جائے‘ جسے ہمارے سیاسی فیصلہ سازوں نگل گئے اور ڈکار بھی نہیں لیا۔ تحریک انصاف کو اگلے مرحلے میں پورے خیبرپختونخوا کے لئے ’جی ٹی ایس‘ جیسی خدمات بحال کرنی چاہئیں کیونکہ پبلک ٹرانسپورٹ کا شعبہ دانستہ طور پر نظرانداز کرنے والے کبھی بھی اِس کی حکومتی سرپرستی میں بحالی نہیں چاہیں گے اور اندیشہ ہے کہ ’پشاور میٹرو بس‘ منصوبے کو بھی دہشت گردی‘ آتشزدگی اور کسی احتجاج کی آڑ میں نقصان پہنچانے کی بھرپور اور سرتوڑ کوشش کی جائے گی‘ جس کی منصوبہ بندی یقینا کر لی گئی ہو گی! افتتاح تو ہو جائے گا اور بسیں بھی چلنا شروع ہو جائیں گے لیکن ’پشاور میٹرو بس‘ منصوبے کا 100فیصد کام ابھی مکمل نہیں ہوا‘ جس کی تکمیل یکساں اہم ہونے کے ساتھ اِس منصوبے کی حفاظت کے لئے جامع حکمت عملی وضع کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ عمومی سیکورٹی انتظامات ناکافی ہیں اور اِن میں اِس قدر خامیاں ہیں کہ میٹرو بس کو نقصان پہنچانے والے باآسانی وار کر سکتے ہیں اور یہ نہایت ہی تشویشناک بات ہے کہ حفاظتی امور پر خاطرخواہ سنجیدگی اور گہرائی سے توجہ نہیں دی گئی ہے۔ بہرحال اہل پشاور تسلی رکھیں اور چمکنی سے حیات آباد تک ’45 منٹ‘ میں آرام دہ اور ائرکنڈیشن ماحول میں باعزت سفر کا لطف اُٹھائیں۔ یہی موقع ’بی آر ٹی‘ کے روٹ پر ’سیاحتی کارواں‘ متعارف کروانے کا بھی ہے تاکہ ملکی و غیرملکی سیاح جو ایک مختلف مقصد و غرض سے پشاور آتے ہیں اور یہاں کی ’میٹرو بس‘ سے استفادہ کرنا چاہیں تو اُن کے لئے ’بی آر ٹی‘ بطور سیاحتی کشش بھی پیش ہونی چاہئے۔
ذہن نشین رہے کہ مجموعی طور پر 62 کلومیٹر طویل 31 اسٹیشنوںاور 146 سٹاپس پر مشتمل میٹرو بس یک طرفہ ساڑھے ستائیس کلومیٹر سفر طے کرے گی اور یہ شہر کے 7 مختلف حصوں کو ملا رہی ہے۔ منصوبے میں شامل تین کثیرالمنزلہ عمارتیں بھی ہیں‘ جن کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ وہ جون 2021ءتک مکمل کر لی جائیں گی۔وزیراعظم عمران خان اِس وقت متوجہ ہیں اور اُن کی توجہ سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے بطور یاد دہانی عرض ہے کہ ”اَب پشاور کا صرف ایک ہی حق ادا ہونے سے رہ گیا ہے اور وہ یہ ہے کہ خیبرپختونخوا کے اِس بڑے اور مرکزی شہر کو ’مرکزی سیاسی حیثیت‘ کو تسلیم کیا جائے۔“ دو درجن سے زیادہ قومی و صوبائی اسمبلیوں کے اراکین اور سینیٹرز کا تعلق پشاور سے ہے لیکن اِن میں کسی کو بھی نہ تو ماضی میںاور نہ ہی حال کے موافق ترین سیاسی دور میں ’وزیراعلیٰ‘ بننے کا اہل سمجھا جا رہا ہے۔ صوبائی فیصلوں پر تحریک انصاف کے مرکزی فیصلہ ساز (کور کمیٹی) حاوی ہیں‘ جس میں کوئی خرابی نہیں لیکن اگر ’کور کمیٹی‘ موجودہ صوبائی حکومت کی ڈھائی سالہ کارکردگی کا احتساب بھی کر لے اور نتائج کا جائزہ حقیقت پسندی سے لے تو پشاور کو اُس کا جائز سیاسی مقام مل سکتا ہے۔ یقین جانئے کہ یہی درست فیصلہ ہوگا کہ پشاور کو اُس کا جائز سیاسی مقام دیا جائے اور وقت ثابت کرے گا کہ نہ صرف آبادی و رقبے کے لحاظ سے خیبرپختونخوا کا یہ بڑا ضلع (پشاور) نہ صرف تحریک انصاف کا دائمی صدر مقام (مرکز) بن جائے گا بلکہ یہیں سے باقی ماندہ ملک و عالمی سطح پر تبدیلی کے ثمرات اور طرزحکمرانی کے روشن و مثالی پہلو اُجاگر ہوں گے۔ تحریک اِنصاف کو نیک نامی اور اپنی ساکھ بڑھانے کے لئے خاطرخواہ عملی اقدامات کرتے ہوئے اُس ”تجرباتی سراب“ سے نکلنا ہوگا‘ جس نے دیکھتے ہی دیکھتے وفاق اور صوبائی حکومت کی نصف آئینی مدت نگل لی ہے اور اب تحریک انصاف کے پاس سوائے ’بی آر ٹی‘ جیسے سابق دور حکومت کی کارکردگی کے سوا ’فخریہ پیش‘ کرنے کے لئے زیادہ کچھ نہیں۔