امریکا میں ایک اور کورونا وائرس ویکسین کے ابتدائی طبّی تجربات کامیابی سے مکمل ہوچکے ہیں۔ یہ تجربات 45 صحت مند افراد پر کیے گئے جن کی عمریں 18 سے 55 سال کے درمیان تھیں۔
یہ ویکسین بین الاقوامی ادویہ ساز کمپنی ’’فائزر‘‘ نے ایجاد کی ہے جبکہ اس کی تیاری میں جدید ترین ’’آر این اے جین ٹیکنالوجی‘‘ استعمال کی گئی ہے۔
تحقیقی جریدے ’’نیچر‘‘ کے تازہ شمارے میں اس حوالے سے شائع شدہ تفصیلات کے مطابق، اس ویکسین کو BNT162b1 کا عارضی نام دیا گیا ہے اور طبّی تجربات میں شریک افراد کو اس کی دو خوراکیں دی گئیں جو بالترتیب 10 مائیکروگرام، 30 مائیکروگرام اور 100 مائیکروگرام کی مقداروں میں تھیں۔
اسے تیار کرنے والے ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ ویکسین اس لیے بہت مؤثر ہے کیونکہ یہ ایک خاص قسم کے آر این اے پر مشتمل ہے جسے ’’پیغام رساں آر این اے‘‘ (mRNA) کہا جاتا ہے۔
جینیاتی انجینئرنگ کی مدد سے ایک مخصوص ساخت میں بنایا گیا یہ پیغام رساں آر این اے انسانی جسم میں ناول کورونا وائرس کے خلاف فوری مدافعت پیدا کرتا ہے اور جب بھی یہ وائرس متعلقہ فرد پر حملہ کرتا ہے تو اس کے جسم کا مدافعتی نظام فوری طور پر کارروائی کرتے ہوئے اس حملے کو ناکام بنا دیتا ہے۔
اب تک اس ویکسین کی پہلے اور دوسرے مرحلے کی طبّی آزمائشیں مکمل ہوچکی ہیں۔ ابتدائی اور محدود نوعیت کی طبّی آزمائشوں کے نتائج خاصے امید افزا ہیں کیونکہ جن افراد کو اس ویکسین کی زیادہ مقدار والی خوراک دی گئی تھی، ان کے مدافعتی نظام بھی کورونا وائرس کے خلاف اتنے ہی مضبوط ہوگئے۔یہ ویکسین لگوانے والے رضاکاروں میں کورونا وائرس کو ناکارہ بنانے والی اینٹی باڈیز کی مقدار، قدرتی طور پر اس بیماری کو شکست دینے والے افراد کے مقابلے میں 1.9 سے 4.6 گنا تک زیادہ دیکھی گئیں۔اگرچہ یہ ابتدائی کامیابیاں بہت امید افزا ہیں لیکن ابھی تیسرے مرحلے کی طبّی آزمائشیں باقی ہیں جن کے دوران یہ ویکسین ہزاروں افراد پر انتہائی احتیاط سے آزمائی جائے گی۔ اگر اس مرحلے میں بھی یہ ویکسین کامیابی سے ہم کنار ہوئی تو پھر امید ہے کہ امریکی ادارہ برائے غذا و دوا (ایف ڈی اے) بہت جلد اسے بڑے پیمانے پر استعمال کےلیے منظور بھی کر لے گا۔
واضح رہے کہ اگر یہ ویکسین واقعتاً کامیاب ثابت ہوگئی تو پھر ویکسین سازی کی یہی تکنیک دیگر امراض کی مؤثر ویکسین بنانے میں بھی آزمائی جائے گی۔