توجہات مرکوز ہیں۔ ریپیڈ بس ٹرانزٹ (بی آر ٹی) اَلمعروف ’پشاور میٹرو بس منصوبے‘ پر تنقید و تعریف کی صورت اپنوں اور غیروں کی نظریں جمی ہوئی ہیں۔ اندیشہ یہ ہے کہ کسی نہ کسی کی ’نظر لگ ہی نہ جائے!‘ اِس لئے پشاور میٹرو بس منصوبے کے ”خواب سے حقیقت تک کے سفر“ میں اُن سبھی امور کی اصلاح کی جائے‘ جو منصوبہ بندی‘ تعمیراتی عمل اور اِس کے پایہ¿ تکمیل تک پہنچنے کے دوران کسی نہ کسی وجہ یا محرک کے باعث زیرغور نہیں آ سکے۔ یہ ممکن ہی نہیں کہ اِنسان کوئی کام کرے اور اُس میں غلطی نہ ہو البتہ نتائج سے سبق سیکھنا ہی ترقی کا ’کھلا راز‘ ہے اور غلطیوں کو بروقت تسلیم کرنے اور اِن کی فوری اصلاح ’عین دانشمندی‘ ہو گی۔ حکومت کی سرمایہ کاری اور زیرسرپرستی خیبر پختونخوا کے کسی بھی شہر میں بڑے پیمانے پر آمدورفت کے لئے پبلک ٹرانسپورٹ کا بندوبست اپنی جگہ اہم ہے اور اُمید ہے کہ اِس سہولت کو صوبے کے دیگر بڑے شہروں تک پھیلانے پر بھی غور کیا جائے گا۔ اِس سلسلے میں اگر پہلے ہی سے سرمایہ کاری کئے بیٹھے نجی شعبے کو شامل کر لیا جائے اور پبلک ٹرانسپورٹ کو 100 فیصدی حکومت اخراجات سے بنانے کی بجائے ’پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ‘ کے اصول پر اندرون و بیرون ملک پاکستانیوں کو ’سرمایہ کاری ہو سکتی ہے جبکہ ایک تیر سے کئی شکار بھی ممکن ہو سکتے ہیں کیونکہ تحریک انصاف کی اُس قومی حکمت علمی کے ’تصوراتی اور انقلابی نظریئے‘ کو عملی جامہ پہنانا بھی ممکن (آسان) ہوگا جو ایک نئے پاکستان کی تشکیل سے متعلق ہے۔
حال ہی میں وزیراعظم نے تعمیراتی شعبے کے لئے مثالی مراعات کا اعلان کیا ہے جس کی ایک صورت یہ بھی ہو سکتی ہے کہ مختلف چھوٹے بڑے شہروں کی ضروریات کے مطابق پبلک ٹرانسپورٹ کے نظام کو جدت اور وسعت دی جائے۔ اس صورت میں وہ ہزاروں لوگ بھی بیروزگار ہونے سے بچ جائیں گے جن کی ملازمتیں یا کاروبار نجی ٹرانسپورٹ اداروں سے وابستہ ہیں اور جنہیں تشویش ہے کہ پشاور کی میٹرو بس ”اگر“ کامیاب ہو گئی‘ جس کے امکانات روشن ہیں تو یہ سلسلہ پھیلتا چلا جائے گا اور اِن کی مالی مشکلات بڑھتی چلی جائیں گے‘خوش آئند ہے کہ پشاور کا نام لاہور‘ اِسلام آباد اور ملتان پر مبنی اُس فہرست میںشامل ہو گیا ہے جہاں میٹرو بس متعارف کروائی گئی ہے لیکن دیگر شہروں کے مقابلے فرق یہ ہے منصوبے کا تعمیراتی اور ترقیاتی کام مختلف مراحل سے گزر رہا ہے اور اِس کے ”مکمل فعال“ ہونے میں حسب اعلان مہینے لیکن حسب کارکردگی کئی سال لگیں گے۔ منصوبے کے خدوخال کے تحت صوبائی حکومت نے ”ٹرانس پشاور“ کے نام سے ”ریپیڈ ٹرانسپورٹ اتھارٹی“ کا قیام بھی کر دیا ہے‘ جو دی گئی ہدایات اور قواعد کے مطابق اِس کے جملہ امور کا نگران ادارہ ہے۔ بہتر ہوتا کہ مذکورہ اتھارٹی کو اپنے فیصلوں میں خودمختار بنا دیا جاتا اور اِس کے مالی و انتظامی امور میں صوبائی حکومت کی مداخلت کم سے کم رکھی جاتی جبکہ میٹرو بس سے متعلق مسافروں کی شکایات کے لئے ایک الگ نظام وضع کرکے صوبائی حکومت کارکردگی اور اِس کے معیار پر نظر رکھتی اور کسی آزاد ذریعے سے ’فیڈ بیک‘ لینے کی کمی شدت سے محسوس ہو رہی ہے‘”ٹرانس پشاور“ میں لفظ ”ٹرانس“ آمدورفت یعنی نقل و حرکت کے لئے استعمال ہونے والے انگریزی لفظ ’ٹرانسپورٹ‘ کا مخفف ہے۔ حکومتی دستاویزات کے مطابق مجموعی طور پر ’ٹرانس پشاور‘ کے تحت 27کلومیٹر طویل راہداری 7 روٹس میں تقسیم ہے اور ابتدائی طور پر صرف 2 روٹس پر بسیں چلائی جائیں گی‘ جن میں ’ایکسپریس کوریڈور‘ پر سات مقامات پر بس سٹاپ (اسٹیشنز) بنائے گئے ہیں۔
دوسری اور سب سے بڑی راہداری ’سٹاپ اوور کوریڈور‘ ہے جو ایکسپریس نامی راہداری ہی کی طرح کارخانو بازار سے چمکنی تک جائے گا لیکن اس پر چلنے والی بسیں تیس چھوٹے بڑے سٹیشنز پر رکیں گی۔ تیسرا روٹ اٹھارہ کلومیٹر طویل ہے جو شاہ عالم پل سے کوہاٹ اڈہ تک جائے گا۔ چوتھا روٹ چمکنی سے پشتخرہ چوک تک‘ پانچواں روٹ اندرون حیات آباد (مال) سے فیز سکس تک‘ چھٹا روٹ اندرون حیات آباد (مال) سے حیات آباد فیز سات تک جبکہ ساتواں روٹ بھی حیات آباد سے کارخانو بازار تک جائے گا۔ ”شہر سے بورڈ آفس“ نان سٹاپ روٹ سے متعدد تعلیمی اداروں (سکولوں‘ کالجوں جامعات) بشمول پشاور یونیورسٹی‘ اِسلامیہ کالج اور خیبرٹیچنگ (شیرپاو¿) ہسپتال کو جوڑا جا سکتا ہے۔ تحقیق کی جائے تو تعلیمی اِداروں اور دفاتر میں جانے والوں کی سب سے بڑی تعداد سیٹھی ٹاو¿ن سٹاپ سے بورڈ آفس سٹاپ تک سفر کرنے والے پائے جائیں گے۔ اِسی طرح ایک روٹ اگر سیٹھی ٹاو¿ن سٹاپ سے صدر سٹاپ تک بنایا جائے تو دفتری اوقات کے آغاز و اختتام پر اِس راہداری سے بھی استفادہ کرنے والوں کی تعداد غیرمعمولی ہو گی۔ بنیادی بات یہ ہے کہ میٹرو بس کی صورت ایک خواب کی تعبیر تو پیش کر دی گئی ہے لیکن اِس کی تکمیل اور اِس تجربے کے نتائج پر مستقل نظر رکھنا ہوگی۔ مجموعی طور پر مذکورہ 7 راہداریوں پر کل 220 بسیں چلائی جائیں گی لیکن افتتاح اور آغاز کے مرحلے (ٹیسٹ رن) پر 2 مرکزی راہداریوں (ایکسپریس اور سٹاپ اوور) سے استفادہ کیا جا رہا ہے جو کل راہداری کے قریب 70فیصد حصے پر مشتمل ہے۔
منتظمین کے مطابق دیگر راہداریوں کو آئندہ چند دنوں میں بتدریج فعال کیا جائے گا تاکہ مسافروں کے اچانک اور ممکنہ بڑے ریلے کو سنبھالنا ممکن ہو اور اُن سبھی الیکٹرانک آلات کی جانچ بھی ہو سکے‘ جن کا استعمال ٹکٹنگ اور دوران سفر کیا جائے گا۔ ’ایکسپریس راہداری‘ چمکنی سے کارخانو مارکیٹ تک ستائیس کلومیٹر طویل ہے جبکہ ’سٹاپ اوور‘ راہداری بھی چمکنی سے کارخانو مارکیٹ سٹاپ تک ہی طویل ہے تاہم اِس پر سفر کا دورانیہ زیادہ ہوگا کیونکہ اِس میں بسیں 30چھوٹے بڑے سٹاپس پر رکیں گی۔ پہلے مرحلے میں صبح چھ بجے سے رات دس بجے تک مذکورہ دونوں راہداریوں کے لئے 61 بسیں مختص کی گئی ہیں جن میں پچیس ایکسپریس روٹ پر اور چھتیس بسیں سٹاپ اوور روٹ پر چلائی جا رہی ہیں اور کم سے کم سفری کرائے کی شرح دس روپے جبکہ زیادہ سے زیادہ پچاس روپے مقرر کی گئی ہے۔ نجانے کس منصوبہ بندی کے تحت یہ ہدف اخذ کیا گیا ہے کہ یومیہ تین لاکھ مسافر ’پشاور میٹرو‘ سے استفادہ کریں گے‘ جبکہ 92 یونین کونسلوں پر مشتمل پشاور کی آبادی ساٹھ لاکھ سے زیادہ ہے اور اِس آبادی کا کم سے کم بیس فیصد یومیہ سفری سہولیات سے استفادہ کرتا ہے جبکہ فیصلہ ساز سمجھتے ہیں کہ میٹرو بس سے پشاور کی آبادی کا صرف چار سے آٹھ فیصد حصہ ہی استفادہ کرے گا جو کہ خام خیالی اور منصوبہ بندی کی کمزوری ہے۔ اگر صوبائی حکومت اِفتتاحی ایام سے تمام بسیں بھی چلا دیتی تو باوجود تعطیلات کے ایام یہ کھچا کھچ بھری ملتیں اور یہی وہ نکتہ ہے کہ جہاں ’ٹرانزٹ پشاور‘ کے اِنتظامی اخراجات کم سے کم رکھنے کے ساتھ آمدن کے اہداف کو شروع دن سے زیادہ رکھا جا سکتا ہے تاکہ بعدازاں سبسڈی نہ دینا پڑے اور خدانخواستہ میٹرو بس بھی دیگر حکومتی اِداروں کی طرح قومی خزانے پر بوجھ نہ بن جائے۔