آج مملکت خداداد پاکستان 73سال کا ہوگیا۔قوموں کی تاریخ میں سات عشروں کا عرصہ کوئی زیادہ عرصہ نہیں ہوتا۔ان سات عشروں میں ہم نے بہت کچھ حاصل بھی کیا اور بہت کچھ کھوبھی دیا۔ہر سال ہم چودہ اگست کو آزادی کا جشن مناتے ہیں گھروں پر سبز ہلالی پرچم لہراتے ہیں اپنے سینوں پر بھی جھنڈیوں کے بیج سجاتے ہیں نوجوان موٹر سائیکلوں کے سائلنسر نکال کر سڑکوں پر فراٹے بھرتے پھرتے ہیں سمینار اور تقاریب منعقد کی جاتی ہیں وطن کو عظیم سے عظیم تر بنانے کے نغمے گائے جاتے ہیںریلیاں نکالی جاتی ہیں تقریری مقابلے ہوتے ہیں ہمارے قائدین قوم کے نام پیغامات جاری کرتے ہیں جن میں قوم کو متحد ہونے کے بھاشن دیئے جاتے ہیں توپوں کی سلامی دی جاتی ہے ملک کی ترقی، خوشحالی اور عالم اسلام کے اتحاد و اتفاق ، کشمیر اور فلسطین کی آزادی اور دشمنان اسلام کے نیست و نابود ہونے کی دعائیں مانگی جاتی ہیں دن جب ڈھل جاتا ہے تو لمبی تان کر سو جاتے ہیں اور اگلی صبح کا سورج طلوع ہوتے ہی اپنے کل والے عہدو پیمان بھول کر اپنے اپنے دھندوں میں لگ جاتے ہیں۔کوئی دودھ میں پانی ملارہا ہوتا ہے تو کوئی سستا کیمیکل اس میں ڈال کر مہنگے داموں بیچتا ہے، کوئی چائے کی پتی میں چنے کے چھلکے اور لکڑی کے برادے میں ملاکر بیچتا ہے تو کوئی مصالحہ جات میں اینٹیں پیس کر ملاتا اور خوب منافع کماتا ہے کوئی گلے سڑے پھل اور سبزیاں گاہک کو بیچ کر خود کو دنیا کا سب سے ہوشیار اور چالاک کاروباری شخص گردانتا ہے۔
تو کوئی دوسروں کی جائیداد ہتھیانے کے لئے جعلی دستاویزات کی تیاری میں مصروف رہتاہے، دفاتر، دکانوں، حجروں، چائے خانوں اور تھڑوں پر بیٹھ کر ملک کی سیاسی صورتحال پر تبصرے شروع کئے جاتے ہیں بحث کے تمام شرکاءاس بات پر متفق ہیں کہ ہمارے حکمران چور، بددیانت، خیانت کار، کرپٹ، دھوکے باز اور ابن الوقت ہیں کسی کو ملک کی پروا ہے نہ ہی اسلامی اقدار کی پیروی کرتا ہے۔ المیہ یہ ہے کہ دوسروں کو غدار، ملک دشمن، عوام دشمن، خیانت کار اور کرپٹ قرار دینے والے اپنے گریبانوں میں جھانک کر پہلے اپنا محاسبہ کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کرتے ۔اسلام کے نام پر حاصل کئے گئے اس ملک میں جس کا جتنا بس چلتا ہے وہ اسی قدر کرپٹ اور چور ہے۔جس کی بنیادی وجہ اپنے اقدار اور اسلام کی تعلیمات سے دوری ہے۔ہم نے بہت سے لوگوں کو یہ شکوہ کرتے ہوئے سنا ہے کہ اس ملک نے ہمیں کیادیا ہے، کوئی یہ سوچنا گوارا نہیں کرتا کہ اس نے اس ملک کو کیادیا ہے۔ جن لوگوں نے ملک کی آزادی کے لئے جان و مال اور عزت و آبرو کی قربانیاں دیں وہ اس ملک سے کیا لے کرگئے؟آج ملک میں ان کا نام لیوا بھی کوئی نہیں،مملکت خداداد پاکستان اس خطے کے مسلمانوں کے لئے اللہ تعالیٰ کا عظیم تحفہ ہے۔اس کی بنیادوں میں ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں شہیدوں کا لہو ہے۔ اس کی حفاظت اور اسے بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کے تصور کے مطابق اسلامی فلاحی ریاست بنانا اس دھرتی پر بسنے والے ہر شہری کا قومی فریضہ ہے۔
یہ صرف سیاست دانوں یا حکمرانوں کی ذمہ داری نہیں ہے۔ اس پاک سرزمین پر رہنے والے ہر شہری کی ذمہ داری ہے خواہ اس کا تعلق کسی بھی قومیت، لسانی گروپ، علاقے، صوبے یا مسلک سے ہوکہ وہ اپنے قومی فرائض کو پہچانے اور پھر ان فرائض کو پوری دیانت داری ، ایمانداری اور خلوص نیت سے ادا کرے، یہ کوئی بار گراں نہیں، ہمیں صرف اپنے اور اپنی پاک دھرتی کے ساتھ مخلص ہونا ہے، ہمیں اس کی ملکیت کا حق ادا کرنا ہے۔ جب ہم میں سے ہر شخص ایماندار، دیانت دار، سچا اور محب وطن ہوگا تو پورا معاشرہ درست ہوگا اور جب معاشرہ ٹھیک ہوگا تو ہمارے کسی حکمران ، کسی جج، کسی جرنیل اور کسی اعلیٰ افسرکو اپنے اختیارات سے تجاوز کرنے ، کسی کا حق مارنے، لوٹ مار کرنے اور قومی امانت میں خیانت کرنے کی جرات ہی نہیں ہوگی، ہمیں صرف نیکی اور بدی میں فرق کرنا ہے جھوٹ کو جھوٹ اور سچ کو سچ کہنے کی جرات پیدا کرنی ہے۔جن لوگوں نے اختیارات سے تجاوز کیا، غیر قانونی طریقے سے دولت جمع کی ہے ان کی قدر و احترام کرکے ان کا حوصلہ بڑھانے کے بجائے ان سے قطع تعلق کرنا ہے ان کے ضمیر کو جھنجوڑ کر جگانا ہے ان کی ملامت کرنی ہے تاکہ انہیں اپنے کئے پر ندامت کا احساس ہو۔ جب ہم میں سے ہر شہری میں احساس ندامت، احساس جرم اوراحترام انسانیت کا جذبہ پیدا ہوجائے تو معاشرہ خود بخود سنور جائے گا۔آج تجدید عہد کا دن ہے لیکن عہد کی تجدید صرف آج کے دن کے لئے مختص نہیں ہونی چاہئے بلکہ ملک کو عظیم سے عظیم تر بنانے کے عہد پر ہم میں سے ہر ایک کو آج ہی سے عمل کرنا ہے۔ اگر ہم نے ذاتی مفادات پر قومی مفادات کو ترجیح دینے کا آغاز کیا تو ہمیں عظیم قوم بننے سے دنیا کی کوئی طاقت نہیں روک سکتی۔یہی حکیم الامت علامہ اقبال کا خواب اور یہی بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناح کا فلاحی اسلامی مملکت پاکستان کا تصور تھا۔