شکوہ‘جواب شکوہ

 تنازعہ یہ ہے کہ تعلیمی ادارے آج پندرہ اگست سے کھلیں یا پندرہ ستمبر سے؟ اِس سلسلے میں 2 مو¿قف ہیں۔ پہلا مو¿قف نجی تعلیمی اداروں کا ہے جو آج پندرہ اگست سے تعلیمی سرگرمیوں کی بحالی چاہتے ہیں ۔ یہ مو¿قف خالصتاً کاروباری سود و زیاں کی بنیاد پر استوار ہے‘ جس میں دلائل اور منطق کا عمل دخل نہیں اور نہ ہی تعلیمی ادارے صحت سے متعلق کسی ہنگامی صورتحال کے پیدا ہونے کی صورت میں اِس کی ذمہ داری قبول کرنے کو تیار ہیں ۔ دوسرا مو¿قف بصورت ”قومی حکمت عملی“ چاروں صوبوں کی مشاورت سے وفاقی حکومت نے تشکیل دی ہے جس کے مطابق پندرہ ستمبر سے تعلیمی سرگرمیاں بحال کرنے کے لئے حتمی فیصلہ 10 ستمبر سے قبل طے شدہ اعلیٰ سطحی اجلاس میں ہوگا جس میں چاروں صوبوں اور وفاق سے تعلق رکھنے والے متعلقہ شعبہ¿ تعلیم کے نمائندے شریک ہوں گے۔ اگر اُس وقت ملک میں ’کورونا وبائ‘ پھیلنے کی شرح موجودہ کم ترین سطح پر رہی تو ممکنہ طور پر تعلیمی ادارے پندرہ ستمبر سے کھول دیئے جائیں گے لیکن اگر قومی اور عالمی سطح پر ’کورونا وبائ‘ سے متعلق کوئی نئی ہنگامی صورتحال پیدا نہ ہوئی تو معمول کی تعلیمی سرگرمیاں ”مشروط طور پر“ بحال کر دی جائیں گی۔ حکومت کی جانب سے تاحال یہ بات نہیں کہی گئی کہ نجی تعلیمی ادارے کورونا وبا ءسے متعلق حکومت کے وضع کردہ قواعد و ضوابط کا مالی بوجھ زیرتعلیم بچوں کے والدین پر نہیں ڈالیں گے ‘قومی و صوبائی فیصلہ سازی کے منصب پر فائز اعلیٰ اذہان کو سمجھنا ہوگا کہ اُن کا کام صرف ’احکامات بصورت اعلامیہ‘ جاری کرنا نہیں ہوتا بلکہ عام آدمی کے حقوق کا تحفظ بھی کرنا ہے اور اِس سلسلے میں مسلسل و دانستہ کوتاہی کی والدین بھاری قیمت ادا کر رہے ہیں‘ جنہیں اندیشہ ہے کہ کورونا وبا ءسے متعلق احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کے نام پر اُنہیں ماہانہ فیسوں میں نئے ’جگا ٹیکس‘ کا سامنا نہ کرنا پڑے۔

حکومت کا مو¿قف منطقی‘ زمینی حقائق کے مطابق اور سوفیصد درست ہے کہ کاروباری سرگرمیوں کے برعکس تعلیمی ادارے صرف اُسی صورت کھولے جائیں جب کورونا وبا ءکے پھیلنے کا عمل کم یا سست ہو ۔ اُمید کی جا سکتی ہے کہ من مانی کی صورت کرنے والے نجی اداروں کی سخت سرزنش ہوگی‘ عجیب و غریب صورتحال ہے کہ اب والدین کس کی سنیں‘ کس کی مانیں اور کس کے آگے سرتسلیم خم کریں۔ معلوم ہی نہیں ہو رہا کہ ”شکوہ اور جواب شکوہ“ کی بجائے حکومت اپنی طاقت کیوں اِستعمال نہیں کرتی ۔والدین کی پریشانی‘ تشویش میں ڈھل رہی ہے جسے کون سمجھے گا؟ نجی سکول نہ ہوئے تعلیم کا مستقبل کیا رہ جائے گا؟ آخر کوئی والدین کا نکتہ¿ نظر اور اِن کا مو¿قف کیوں نہیں مدنظر رکھتا جو بے بس ہیںاور جنہیں اپنے چھوٹے بڑے بچوں کے لئے معیاری تعلیم کا کوئی دوسرا ذریعہ دکھائی نہیں دے رہا ۔

 اگر ملک میں یکساں نصاب تعلیم رائج نہیں ہوسکتا۔ تو آخر قوم کس سمت جا رہی ہے اور ایک ایسے نظام سے کس درخشاں مستقبل کی اُمیدیں وابستہ کر لی گئی ہیں‘ جس میں عام آدمی کے آئینی حقوق فراہم کرنے میں پارلیمانی جمہوری ادارے‘ پارلیمانی جمہوری اراکین‘ پارلیمانی جمہوری طرز انتخاب‘ پارلیمانی جمہوری طرزحکمرانی اور سیاسی جماعتیں‘ شخصیات اور اِدارے بحیثیت مجموعی ناکام ثابت ہوئے ہیں‘ جو کسی بھی مسئلے کا حل نہیں بلکہ بذات خود مسئلہ ہیں! اِس صورتحال میں ”موت کا احسان“ لینے سے بہتر ہے کہ خود کو وبا ءہی کے حوالے کر دیا جائے۔ رواں ہفتے اردو زبان کے معروف شاعر ’راحت اندوری‘ کا آخری کلام لائق توجہ اور موضوع پر حرف آخر ہے۔
نئے سفر کا جو اعلان بھی نہیں ہوتا...تو زندہ رہنے کا ارمان بھی نہیں ہوتا...تمام پھول وہی لوگ توڑ لیتے ہیں...وہ جن کے کمروں میں گلدان بھی نہیں ہوتا...”وبائ“ نے کاش ہمیں بھی بلا لیا ہوتا...تو ہم پر ”موت کا اِحسان“ بھی نہیں ہوتا