نیپرا نے فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ کی مد میں بجلی 2 روپے 6 پیسے فی یونٹ مہنگی کر دی ۔نیپرا نے لگے ہاتھوں بجلی مہنگی کرنے کا نوٹیفیکیشن بھی جاری کر دیا‘نیپرا کا کہنا ہے کہ بجلی کی قیمت میں اضافہ نومبر 2019ءسے جون 2020 ءتک کیلئے کیا گیا‘قیمت میں حالیہ اضافے سے بجلی صارفین پر 20 ارب روپے سے زائد کا بوجھ پڑےگا، نیپرا نے فیصلے کو بجلی کی قیمتوں میں اضافے کا نام دے کر صارفین کو پریشان کرنے کے بجائے اسے بجلی کی قیمتوں میں ردوبدل کا نام دیا ہے اوریہ بھی کہا ہے کہ یہ کوئی نیا فیصلہ نہیں بلکہ گزشتہ 8 مہینوں کےلئے بجلی کی قیمتوں میں ردوبدل کیا گیا ہے،نیپرا کا کہنا ہے کہ بجلی کی قیمتوں میں 5 ماہ کےلئے اضافہ اور3ماہ کےلئے کمی کردی گئی ہے۔مزید وضاحت کرتے ہوئے کہا گیا کہ نومبر2019 ءکےلئے 98 پیسے اور دسمبرکیلئے1روپے 87پیسے کا اضافہ کیا گیا ہے، جنوری 2020 ءکے لیے 1 روپے 11پیسے ‘ فروری کےلئے 1 روپے 20 پیسے اور مارچ کےلئے 10 پیسے فی یونٹ اضافہ کیا گیا۔ نوٹیفکیشن کے مطابق اپریل2020ءکےلئے 70 پیسے‘مئی کیلئے1 روپے 25 پیسے اورجون کےلئے1روپے 5پیسے فی یونٹ کمی کی گئی ہے۔یہ مژدہ بھی سنایاگیاکہ بجلی کی قیمتوں میں کمی اوراضافے کا اطلاق رواں ماہ کے بلوں پر ہوگا، تاہم اضافے کا اطلاق لائف لائن صارفین کے علاوہ سب پرہوگااور 300 یونٹ سے زیادہ بجلی استعمال کرنے والے صارفین قیمتوں میں کمی کے ریلیف سے محروم رہیں گے۔نیپرا کا یہ دلچسپ نوٹی فیکیشن پڑھ کر ایک نامور شاعرہ کا یہ مشہور شعر یاد آیا جو بچپن سے میرا بہت پسندیدہ شعر ہے ‘ ہوسکتا ہے کہ آپ کو بھی پسند آئے۔” اس شرط پہ کھیلوں گی پیا ‘پیار کی بازی۔
جیتوں تو تجھے پاﺅں‘ہاروں تو پیا تیری“شاعرہ نے بازی کھیلنے سے پہلے ہی جو شرط رکھی ہے اس سے نتیجے کا فیصلہ ہوچکا ہوتاہے کھیلنے کی ضرورت ہی نہیں رہتی۔نیپرا نے بھی صارفین کے ساتھ کچھ ایسی ہی بازی کھیلی ہے۔جس میں جیت اور ہار دونوں صورتوں میں فائدہ ایک ہی فریق کو جاتا ہے یعنی قیمت میں اضافے کا فائدہ تو واپڈا کو پہنچے گا لیکن کمی کا صارفین کو کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔اسے ہر صورت میں دو روپے چھ پیسے فی یونٹ اضافی قیمت ادا کرنی ہوگی۔اس بار نیپرا نے بجلی مہنگی کرنے کی وجہ بھی صارفین کو بتانے کی چنداں ضرورت محسوس نہیں کی۔ پہلے یہ بہانہ تراشا جاتا تھا کہ پانی کی کمی کے باعث ہائیڈرو پاور جنریشن میں کمی ہوئی، یا فرنس آئل مہنگا ہونے کی وجہ سے تھرمل پاور سٹیشنز کو اضافی رقم دینی پڑی وغیرہ وغیرہ۔صارفین پر بیس ارب روپے کا اضافی بوجھ ڈالا گیا ہے جسے وہ بخوشی نہیں تو طوعاً و کرہاً بھی قبول کرہی لیں گے۔ایک ڈیڑھ ماہ قبل بھی فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ کے نام پر بجلی کی قیمتوں میں اضافہ کیا گیا تھااس وقت یہ جواز پیش کیاگیا کہ چار ارب روپے فرنس آئل پر اضافی اخراجات آئے تھے اور صارفین سے بارہ ارب روپے وصول کئے گئے۔اب کی بار پانچ چھ ارب کے اضافی اخراجات آئے ہوں گے اور صارفین سے بیس ارب روپے وصول کرنے کا پلان بنایا گیا۔
ماضی میں بجلی، گیس، پٹرولیم مصنوعات وغیرہ کی قیمتوں میں سال میں ایک آدھ مرتبہ اضافہ کیا جاتا تھا۔ گزشتہ حکومت کے دور میںجب سے ریگولیٹری اتھارٹیز کے نام پر سفید ہاتھیاں درآمد کی گئی ہیں ان کا پیٹ بھرنے کےلئے مسلسل عوام کو نوچا جارہا ہے۔کوئی مہینہ ایسا نہیں گزرتا جب بجلی، گیس ، پٹرول، ڈیزل اور مٹی کے تیل کی قیمتوں میں اضافہ نہ کیاگیا ہو۔ ظاہر ہے کہ جب نئے ادارے قائم کئے جاتے ہیں تو وہاں بھاری تنخواہوں پر سٹاف بھی بھرتی کیاجاتا ہے انکے دفاتر‘ رہائش گاہوں‘ گاڑیوں‘ فیول‘علاج معالجے‘بچوں کی تعلیم بیگمات کی شاپنگ‘ بچوں کی شادی اور سیر و تفریح کے اخراجات بھی اٹھانے پڑتے ہیں اور یہ سارا بوجھ صارفین پر ڈالا جاتا ہے۔ اور ”بہانہ جو را بہانہ ہائے بیسیار“کے مصداق ان اضافی اخراجات کےلئے بے شمار جواز پیش کئے جاتے ہیں۔حکومت اس ملک اور یہاں کے غریب عوام کے وسیع تر مفاد میں ان درجن بھر ریگولیٹری اتھارٹیز کو ختم کرنے کا اعلان کرے تو نہ صرف اربوں روپے کے اضافی اخراجات سے بھی بچا جاسکتا ہے بلکہ بجلی‘ گیس‘تیل‘ چینی‘ آٹا اور دیگر اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں کمی کرکے عوام کو اچھا خاصا ریلیف بھی دیا جاسکتا ہے۔