اہل پشاور مذاق اور سنجیدگی کے درمیان پھنسے ہوئے ہیں جس میں تمیز بھی نہیں کر پا رہے اور یہی وجہ ہے کہ اکثر اچھی خبر پر رونا اور کسی بُری خبر پر ہنسنا شروع کر دیتے ہیں۔ ضروری نہیں کہ وحشت زدہ ہونے جیسی یہ کیفیات اکثر طاری رہیں لیکن واردات مسلسل ہے کہ پشاور کے رہنے والوں کو اب ہر نقشہ (منظر) اُلٹا نظر آنے لگا ہے! بہرحال اب تو عادت ہو چلی ہے کہ گردوپیش سے بے نیاز ہو کر اپنے صرف اور صرف اپنے معمولات پر (بقدر ضرورت) غور کیا جائے۔ اِس یکسانیت بھرے طرزفکروعمل کا نتیجہ یہ ہے کہ پشاور کے ماحول پر اپنائیت کی بجائے اُکتاہٹ حاوی ہو گئی ہے۔ اجتماعیت کی بجائے ’بلا وجہ ناراضگی‘ کا ماحول عام ہے اور یہی وجہ ہے کہ جدھر دیکھو ’اجنبیت‘ گھومتی پھرتی‘ بولتی‘ ہنستی اور کھاتی پیتی نظر آتی ہے جبکہ پھولوں کا شہر پشاور معنوی اعتبار سے صرف باغات ہی کا نہیں بلکہ کبھی رنگ برنگے
پھولوں (مختلف قوموں اور مختلف روایات رکھنے والے ملنسار افراد) کا گلدستہ ہوا کرتا تھا! تیرہ اگست کے روز المعروف ’میٹرو بس‘ کے افتتاح کے بعد سے پیش آنے والے چند (افسوسناک) واقعات لائق توجہ ہیں‘ جن کے محرکات کا سدباب اور جن کے مرتکب افراد کو اگر شروع دن سے ذمہ داری اور ملکیت کا احساس نہ دلایا گیا تو اندیشہ ہے کہ ’میٹرو بس‘ اپنی تمام تر خوبیوں کے ساتھ زیادہ عرصہ فعال نہیں رہ سکے گی۔ ’مدینہ کی ریاست‘ قائم کرنے کا عزم رکھنے والی تحریک انصاف کو سزا¿ و جزا¿ کے اُن تصورات کو بھی متعارف کروانا چاہئے جن کی بدولت سرکاری املاک کو نقصان پہنچانے جیسے خصوصی اور عمومی جرائم کی شرح میں غیرمعمولی کمی لائی جا سکتی ہے۔پشاور کے باغات‘ قبرستان‘ کھیل کے میدان‘ سبزہ زار‘ آثار قدیمہ‘ حتیٰ کہ نکاسی¿ آب کے نالے (شاہی کھٹہ) تک تجاوزات سے محفوظ نہیں۔تحریک انصاف کے طرزحکمرانی پر تنقید کے ہزاروں ہزار موضوعات ایسے ہیں
جنہیں پیش نظر رکھتے ہوئے 2013ءسے خیبرپختونخوا میں جاری طرز حکمرانی پر گھنٹوں تنقید کی جا سکتی ہے جیسا کہ حسب سابق اعلانات پر حکومت چل رہی ہے۔ تھانہ کلچر تبدیل نہیں ہوا۔ لینڈ ریکارڈ کی کمپیوٹرائزیشن سالہا سال سے مکمل نہیں ہو پا رہی جبکہ دیگر صوبے یہ کام کب کا مکمل کر چکے ہیں۔ پٹوار خانے اور مال خانے کا نظام جوں کا توں بدعنوانی کا گڑھ ہے۔ سرکاری دفاتر میں اکثر جائز کام کروانے کے لئے بھی رشوت و سفارش حسب معمول کارآمد ہے۔ انسداد بدعنوانی اور احتساب کا خوف تاریخ کی کم ترین سطح پر ہے۔ مفادات سے متصادم قانون سازی صوبائی اسمبلی سے منظوری کی منتظر ہے وغیرہ وغیرہ۔ گھٹن کے اِس ماحول میں ’میٹرو بس‘ کی کھڑکی سے آنے والا ’تازہ ہوا کا جھونکا‘ سرگوشیاں کر رہا ہے کہ (خدارا) اِس منصوبے کی قدر کریں‘ اِسے اپنا سمجھیں اور اِس سے استفادہ کرتے ہوئے مدنظر رکھیں کہ 1: یہ عوام ہی کے پیسے اور مالی ذمہ داری کے بوجھ سے مکمل ہوا ہے اور اِس کی پائی پائی حکمرانوں نے نہیں بلکہ ہم عوام ہی نے ادا کرنی ہے۔ 2: صوبائی حکومت سے سیاسی اختلاف رکھنے والے ’میٹرو بس‘ کو نشانہ نہ بنائیں کیونکہ یہ تحریک انصاف کی نہیں بلکہ پاکستان اور عوام کی ملکیت ہے
‘ جسے ”اپنا“ سمجھنا چاہئے اور 3: پشاور کی میٹرو بس سمیت کسی بھی صوبے یا وفاقی دارالحکومت کی حدود میں سرکاری املاک کو نقصان پہنچانا جہاں قانوناً جرم ہے وہیں اسلامی تعلیمات یعنی شرعی اعتبار اور اخلاقی طور سے بھی اِس قسم کے طرزعمل کا کوئی جواز نہیں بنتا کہ مسلمان نہ صرف اپنے بلکہ دوسروں کے لئے بھی سراپا سلامتی‘ سراپا ایثار اور سراپا قربانی سے سرشار ہونا چاہئے۔ جب ہم قومی املاک کو نقصان پہنچا رہے ہوتے ہیں اور یہ واقعات پوری دنیا میں سوشل میڈیا یا ذرائع ابلاغ کی وساطت سے پہنچتے ہیں تو کیا اِس سے پاکستان کی نیک نامی ہوتی ہوگی؟ عوام میں قومی املاک سے متعلق احساس ذمہ داری‘ احساس ملکیت‘ اِس متعلق قوانین و قواعد سے آگاہی اور بار بار یاد دہانی کروائی جائے تو احترام و تعظیم کے عمل کو آسان و ممکن بنایا جا سکتا ہے۔ اہل سیاست‘ اہل منصب‘ اہل منبر‘ اہل علم‘ اہل ہنر‘ اہل فکر اور اہل ابلاغ کو ”سطحی عوامی شعور“ کی سطح کو ایک درجہ بلند کرنے کے لئے ’فرض سمجھتے ہوئے‘ اور ’رضاکارانہ (غیرمشروط) طور پر‘ اپنی خدمات پیش کرنی چاہیئں۔ تبدیلی مسلط و متعارف نہیں کروائی جاتی بلکہ یہ روئیوں اور سوچ کی اِصلاح کا دوسرا نام ہے۔