قدرمشترکہ

خیبرپختونخوا کے طول و عرض ’محرم الحرام‘ کے پہلے عشرے کے دوران قریب 34 ہزار پولیس اہلکاروں کی خدمات سے اِستفادہ کیا جائے گا جو مذکورہ عرصے کے دوران برآمد ہونے والے کل 583 ماتمی جلوسوں اور 6ہزار 41 مجالس کو خصوصی تحفظ فراہم کریںگے جبکہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے معمول کے حفاظتی انتظامات بھی جاری رہیں گے۔ پولیس کی جانب سے رواں برس بھی پشاور‘ کوہاٹ‘ ہنگو‘ کرم ‘ اُورکزئی‘ ڈیرہ اسماعیل خان‘ ٹانک اور ہری پور کو ”انتہائی حساس“ قرار دیا گیا ہے ۔ محرم الحرام کسی ایک فرقے یا مسلک کا مخصوص ”مذہبی تہوار“ نہیں بلکہ اِس یادآوری کا اہتمام سبھی مسالک کے ہاں کسی نہ کسی صورت کیا جاتا ہے اور وہ’قدر مشترک‘ جو سبھی مسالک کو ایک دوسرے کے قریب لانے کا باعث ہو سکتی ہے لیکن یہی اختلاف و تنازعے کا باعث بنی ہوئی ہے اور سیاسی حکومت جس کا بنیادی کام یہ ہے کہ مختلف سوچ رکھنے والے طبقات کے درمیان ہم آہنگی پیدا کرے اور معاشرے میں پائے جانے والے تنازعات ختم کئے جائیں لیکن اِس سے زیادہ آسان کام یہ سمجھ لیا گیا ہے کہ محرم الحرام کے خصوصی ایام آتے ہی صوبے کا اختیار عملًا پولیس کے حوالے کر دیا جائے ۔ محرم الحرام کی آمد سے کئی ہفتے قبل ’گہما گہمی‘ کا آغاز ہو جاتا ہے۔

 پولیس حکام کی مصروفیات دیدنی ہوتی ہیں۔ گزشتہ برس کی حکمت عملی پر درج تاریخیں اور نام تبدیل کرکے نئی دستاویز پورے اہتمام سے جاری کی جاتی ہیں۔ وال چاکنگ‘ مہاجرین کے شہروں میں داخلے‘ نفرت انگیز‘ منافرت پر مبنی تقاریر اور تحریر پر پابندی عائد کر دی جاتی ہے‘ جس سے کسی کی دل آزاری کا شائبہ ہو ۔ آخر کیا وجہ ہے کہ کسی ایک سال محرم الحرام کے دوران پیش آنے والے خلاف قانون و قواعد اقدامات کو فہرست نہیں کیا جاتا اور خلاف ورزی کے مرتکب افراد کے خلاف ایسی سخت کاروائی نہیں کی جاتی جس سے آئندہ سال اُن واقعات کو نہ دہرایا جائے؟ آخر کیا اَمر مانع ہے کہ اختلاف رکھنے اور نہ رکھنے والوں کو ایک دوسرے کے آمنے سامنے بٹھا کر تاریخی واقعات سے جڑے مسلکی فروعی اختلافات ہمیشہ کے لئے طے نہیں کر دیئے جاتے؟ لائق توجہ امر یہ ہے کہ اِس پورے ”اختلافی منظرنامے“ سے پاکستان کو داخلی طور پر کمزور اور معاشی و اقتصادی طور پر عدم اِستحکام سے دوچار دیکھنے والی قوتیں فائدہ اُٹھاتی ہیں لیکن اگر مسلکی اختلافات ختم یا کسی صورت کم کر دیئے جائیں اور ہر مسلک کو اپنے خیالات کی تبلیغ و اشاعت محدود کرنے پر قائل کرلیا جائے تو پاکستان کے خلاف سازشیں کرنے والوں کو باآسانی شکست دی جا سکتی ہے۔

 غیرملکی مفادات کے لئے پاکستان کو ’میدان جنگ‘ میں تبدیل کرنے والوں کا تعلق چاہے کسی بھی مسلک سے ہو اُن کے قول و فعل اور کارکردگی کا بلاامتیاز احتساب ہونا چاہئے۔علوم و فنون کے ترقی یافتہ دور میں جبکہ کتب اور کتب خانوں کا شمار ممکن نہیں۔ کتاب تک رسائی کبھی بھی اِس قدر آسان اور کم خرچ نہیں رہی۔ قرآن حکیم و احادیث نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں بیان کردہ موضوعات اور اِن موضوعات کی ذیل میں عنوانات سے استفادہ الیکٹرانک آلات کی وجہ سے ماضی کے مقابلے انتہائی آسان ہو چکا ہے۔ کسی ایک لفظ کا قرآن میں ذکر اور اُس کے شان نزول سے لیکر متعلقہ احادیث مبارکہ تک رسائی الیکٹرانک کتب کے ذریعے ممکن ہے۔ فقہ اور اسلامی تاریخ سے متعلق سینکڑوں سال پہلے تحریر کی گئی کتب کے کئی کئی اُردو تراجم اور اُن کی شرح و جامع تراجم عام ملتے ہیں تو اِس صورتحال میں ایک ایسی ”عوامی اسلامی تاریخ“ کیوں مرتب نہیں کی جا سکتی جو تمام مسالک اور فرقوں کے لئے یکساں قابل قبول ہو؟ روشن ہدایت قرآن کریم (سورہ¿ آل عمران آیت 103) میں ”اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑنے اور متحد رہنے کا حکم دیا گیا ہے۔“ اگر محرم الحرام کے دوران نواسہ¿ رسول (رضی اللہ عنہ) کی اپنے جانثاروں (رضوان اللہ علیہم اجمعین) کے ہمراہ شہادت‘ قربانی و جانثاری کے واقعات‘ مذکورہ واقعات کا مقام اور تقویمی حوالہ جیسے بنیادی حقائق سے کسی کو اختلاف نہیں تو پھر اختلاف کیا ہے؟ اگر ہر فرقہ کے ہاں نواسہ¿ رسول‘ سیّد الشہدا¿ کے مو¿قف کو درست سمجھا جاتا ہے تو پھراِسلام کے آفاقی پیغام اُور کسی مسلمہ مقصد پر اتفاق کیوں ممکن نہیں؟ تاریخی اسلام سے اختلاف اور باعث اختلاف پہلوو¿ں پر اتفاق رائے پیدا کرنے سے پاکستان کو مضبوط و متحد کرنے میں مدد ملے گی۔