نشہ زہرہے

ہزاروںبلکہ لاکھوں لوگ ہمارے خطے میں سالہا سال سے چرس اور افیون کا استعمال کر رہے ہیں افغانستان کے ساتھ طویل سرحد کی وجہ سے گزشتہ چند دہائیوں میں ہیروئن کا نشہ بھی عام ہوا ‘ہر سال لاکھوں افراد چرس‘ ہیروئن اور افیون کا نشہ کرتے آرہے ہیں اور نہ صرف سالانہ اربوںروپے دھویں میں اڑا رہے ہیں بلکہ اپنی جان سے بھی جارہے ہیں یا اپنی زندگی کے سال کم کرتے جا رہے ہیں ‘کئی فورسز بنائی گئیں ایک سے بڑھ کر ایک ادارہ بنایا گیا قوانین میں تبدیلی کرکے سزائیں سخت کی گئیں آپریشن ہوئے اڈے مسمار ہوئے ہزاروں گرفتاریاں ہر سال کی جاتی رہیں لیکن نہ تو نشہ کرنیوالے افراد کی تعداد میں کمی لائی جا سکی نہ ہی نشہ آور اشیاءکی فراہمی بند کی جا سکی اب ہیروئن کے بعد آئس کے استعمال میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے حالیہ سالوں میں پشاور اور دیگر اضلاع میں باقاعدہ مہمات چلائی گئیں جبکہ دوسری طرف عوامی آگاہی کے لئے یونیورسٹی کالج اور سکولوں کی سطح پر سیمینارز‘ واک‘ تقاریر کے ذریعے آگاہی پیدا کی گئی والدین اور اساتذہ پر زور دیا گیا کہ وہ بچوںمیں آئس اور دیگر نشہ آور اشیاءکے استعمال کی نگرانی کریں اور اگر ان کو کوئی ایسا شک ہو تو رازداری سے پولیس کو آگاہ کریں ‘بے شمار کاروائیاں کی گئیں چند دن تک صورتحال میں بہتری بھی آئی کیونکہ ڈرگ ڈیلرز یا تو پکڑے گئے یا زیر زمین چلے گئے لیکن جب بھی پولیس کی جانب سے سختی کم ہوئی اور دیگر اداروں نے بھی اپنے کام میں کوتاہی کا مظاہرہ کیا تمام نشہ آور اشیاءکا استعمال ایک بار پھر بڑھ گیا اب تو بڑی تعداد میں طلباءاور طالبات اس لت میں پڑ کر نہ صرف اپنا مستقبل تاریک کر رہے ہیں بلکہ اپنی جان کو بھی خطرے میں ڈال رہے ہیں گزشتہ دنوں ایسی کئی ویڈیوز منظر عام پر آئیں جن میں خواتین ہیروئن اور آئس کا نشہ کرتی دکھائی دے رہی ہیں۔

 اس بات سے بے خبر کہ ایک دن یہ لعنت انکے اور انکے بال بچوں اور خاندان کیلئے کتنے مسائل اور بدنامی کا باعث بنے گی جہاں تک چرس اور شراب کا تعلق ہے اسکے استعمال کرنے والوں کی تعداد میں گزشتہ سالوں کے دوران اتنا اضافہ ہوا ہے کہ تقریباً ہر گلی محلے میں لوگ اس کا استعمال کر رہے ہیں حقیقت تو یہ ہے کہ سگریٹ اور پھر چرس دیگر نشہ آور اشیاءکی طرف راغب کرتی ہیں اور پھر بندہ ایک بار اس لت میں پڑ جائے تو اسکی عادت بمشکل چھوٹتی ہے شراب کا استعمال کئی جرائم کا سبب بن رہا ہے لوگ نشے کے زیر اثر رقص و سرور کی محافل‘ جواءاور کئی جرائم میں ملوث ہو کر ایک دلدل میں دھنستے جا رہے ہیں جہاں تک ان گروہوں کے خلاف کاروائی کا تعلق ہے ہر سال ہزاروں افراد کی گرفتاری کا دعویٰ کیا جاتا ہے مگر کمزور قوانین کی وجہ سے وہی لوگ چند دن بعد باہر نکل کر زیادہ زور و شور سے دھندہ کرتے ہیں ضروری ہے کہ ان کے خلاف موثر اور سخت قوانین لائے جائیں تفتیش ایسے افسر کریں جو قابل ہوں ‘نشے کی غرض سے نشہ آور ادویات اور انجکشن کی فروخت بھی اتنا ہی بڑا جرم ہے جتنا ہیروئن اور آئس کی فروخت‘ اس لئے ایسے تمام ڈیلرز اور دکاندار جو ان ادویات کی فروخت نشہ آور اشیاءکی طرح کر رہے ہیں ان کے خلاف بھی سخت ترین کاروائیوں کی ضرورت ہے یہ ایک مسلسل عمل ہے اورصرف ایک آدھ دن چھاپے مار کر ذمہ داری ادا نہیں ہو سکتی دیگر اداروں کے ساتھ ساتھ پولیس افسران کا دعویٰ ہے کہ رواں سال انہوں نے ماضی کے مقابلے میں زیادہ اور موثر کاروائیاں کی ہیں ۔

خیبرپختونخوا پولیس کے انسپکٹر جنرل ڈاکٹر ثناءاللہ عباسی اور کیپٹل سٹی پولیس افسر محمد علی گنڈا پور نے رواں سال آئس ‘ہیروئن چرس‘ افیون اور شراب فروخت کرنے‘ تیار کرنے اور سمگل کرنے والوں کے خلاف کاروائیوں کے حوالے سے بتایا کہ صرف 7 ماہ میں پولیس نے پشاور اور ضلع خیبر میں آپریشنز کے دوران4980 کلو گرام نشہ آور اشیاءقبضہ میں لی ہیں جبکہ 15ہزار 6سو افراد صوبہ بھر سے منشیات کا دھندہ کرنے پر گرفتار کئے گئے ہیں اتنی بڑی تعداد میں گرفتاری سے جہاں ہیروئن‘ آئس اور چرس کا کاروبار ختم یا محدود ہونا چاہئے وہاں اتنی گرفتاریاں یہ بات بھی ظاہر کرتی ہیں کہ کتنی بڑی تعداد میں لوگ اس کاروبار سے منسلک ہیں‘ ایک لعنت ہے جو آئندہ آنے والی نسلوں کو تباہ کردے گی اس لئے معاشرے میں اس کے استعمال کے خلاف آگاہی خصوصاً تعلیمی اداروں اور ہاسٹلوں میں آگاہی کے ساتھ اسکے کاروبار کے خلاف کاروائیاں اور عدالت سے خاطر خواہ سزائیںبے حد ضروری ہیں۔