کورونا کی وباءنے ایک گوہر نایاب ہم سے چھین لیا‘اردو ادب کے ایک نابغہ روزگار اورمنفرد انداز کے انقلابی شاعرڈاکٹر راحت اندوری ابنائے روزگار سے شکوہ کناں داغی اجل کو لبیک کہہ گئے لیکن جاتے جاتے اردو ادب کو اپنی خوبصورت شاعری پر مشتمل کتابوں کا خزینہ دے گئے۔وہ بھارت میں رہتے ہوئے وہاں کے حکمرانوں کے طرز سیاست سے ہمیشہ بغاوت کرتے رہے، دھونس دھمکیوں کے باوجود ناانصافی پر مبنی نظام پر کھل کر نکتہ چینی کی‘راحت اندوری نے ہندوستان میں ایک حلقہ احباب پیدا کیا،وہ جہاں بھی جاتے ‘ لوگ ان کا والہانہ استقبال کرتے، ان کے کلام پر جھوم جھوم اٹھتے‘انہوں نے موت کے خوف کی وجہ سے حق کی آواز بلند کرنے سے کبھی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کی۔ کہتے ہیں کہ ” گھر سے یہ سوچ کے نکلا ہوں کہ مرجانا ہے، اب کوئی راہ دکھا دے کہ کدھر جانا ہے“ ان کا پختہ ایمان تھا کہ خالق کی طرف سے جس دن بلاوا آئے گا، بندے کو لوٹ کر انہی کی طرف جانا ہے، انہیں شاید کورونا کی وباءسے اپنی موت کا یقین ہوگیا تھا تبھی تو کہتے ہیں کہ” یہ سانحہ تو کسی دن گزرنے والا تھا، میں بچ بھی جاتا تو ایک روز مرنے والا تھا“ بھارت سرکار کا طرز سیاست انہیں کبھی نہیں بھاتا تھا۔ وہاں جب بھی انتخابات کے دن قریب آتے ہیں تو دانستہ طور پر پڑوسی ممالک کے ساتھ تعلقات میں کشیدگی پیدا کی جاتی ہے اور پھر اسے قومی بقاءکا مسئلہ بنا کر اسی بنیاد پر سیاست کی جاتی ہے۔ اسی پر چوٹ کرتے ہوئے راحت اندوری کہتے ہیں کہ ” سرحدوں پر یہ جو تناﺅ ہے کیا، ذرا دیکھو، کہیں چناﺅ ہے کیا“ان کا عقیدہ تھا کہ پائیدار امن کے بغیر کوئی قوم ترقی کی منزل کو نہیں پاسکتی، کشیدگی۔
تناﺅ، تصادم ، لڑائی اور جنگ و جدل سے پوری انسانیت کو نقصان پہنچتا ہے، کہتے ہیں کہ ” لگے گی آگ تو آئیں گے سارے گھر زد میں،، یہاں پہ صرف ہمارا مکان تھوڑی ہے“ہندواتوا کی سیاست اور اس کی پیروی کرنے والوں پر راحت اندوری نے ہمیشہ چوٹ لگائی، تنگ نظر اور انتہا پسند لیڈروں کی پیروی کرنے والوں سے اپنی نفرت کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں” یہ لوگ پاﺅں نہیں، ذہن سے اپاہچ ہیں، ادھر چلیں گے جدھر رہنما چلاتا ہے“بھارت کے دقیانوسی اور کرپٹ نظام سیاست پر تنقید کرتے ہوئے راحت اندوری کہتے ہیں کہ ” چور اچکوں کی کرو قدر کہ معلوم نہیں، کون کب کونسی سرکار میں آجائے گا“کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ کسی مشاعرے میں انہوں نے حکمرانوں کو چور کہہ کر پکارا، مشاعرہ ختم ہوا، جونہی وہ گھر پہنچا تو پولیس اس کے پیچھے گھر پہنچ گئی اور اپنے ساتھ پولیس سٹیشن لے گئی، پولیس افسر نے ان سے کہا کہ آپ نے سرکار کو چور کہہ کر سرکاری راز افشا کئے اور غداری کے مرتکب ہوئے ہیں، راحت نے کہا کہ ٹھیک ہے میں نے سرکار کو چور ضرور کہا ہے مگر یہ نہیں کہا کہ بھارت کی سرکار چور ہے، پاکستان ، امریکہ ، برطانیہ یا جاپان کی سرکار چور ہے۔
پولیس افسر نے مسکراتے ہوئے کہا کہ کیا آپ ہمیں بے وقوف سمجھتے ہیں؟ کیا ہمیں معلوم نہیں کہ کونسے ملک کی سرکار چور ہے؟“راحت اندوری کو ہندوستان کا حبیب جالب کہا جاتا ہے،وہ قلم سے نشتر چلانے کا فن جانتے تھے، سیاست، معاشرت اور احترام انسانیت کے موضوعات پر انہوں نے جو کچھ لکھا، خوب لکھا اور دنیا بھر میں ان کے کلام کو غیر معمولی پذیرائی ملی،لیکن وہ لطیف جذبوں کے اظہار میں بھی ید طولیٰ رکھتے تھے۔کہتے ہیں” پھونک ڈالوں گا کسی روز میں دل کی دنیا، یہ تیرا خط تو نہیں ہے کہ جلا بھی نہ سکوں۔ اک نہ اک روز کہیں ڈھونڈ ہی لوں گا تجھ کو، ٹھوکریں زہر نہیں ہے کہ میں کھا بھی نہ سکوں“راحت اندوری میانہ روی کے قائل نہیں تھے، کہتے ہیں” فیصلہ جو کچھ بھی ہو، منظور ہونا چاہئے، جنگ ہو یا عشق ہو، بھرپور ہونا چاہئے“۔ انہوں نے احمد فرازکی زمین پر ایک خوبصورت غزل کہی تھی کہ ” ہاتھ خالی تھے تیرے شہر سے جاتے جاتے، جان ہوتی تو میری جان لٹاتے جاتے۔ اب تو ہر ہاتھ کا پتھر ہمیں پہچانتا ہے، عمر گزری ہے تیرے شہر میں آتے جاتے“خوف اور بے یقینی کی زندگی سے اپنی نفرت کا اظہار کرتے ہوئے راحت اندوری کہتے ہیں کہ ” لوگ ہر موڑ پہ رک رک کے سنبھلتے کیوں ہیں؟ اتنا ڈرتے ہیں تو پھر گھر سے نکلتے کیوں ہیں؟“ راحت اندوری بھی جون ایلیا کی طرح مختصر اور سادہ الفاظ میں بڑی بات کہنے کا فن خوب جانتے تھے، کہتے ہیں” اس کی یاد آئی ہے، سانسو! ذرا آہستہ چلو، دھڑکنوں سے بھی عبادت میں خلل پڑتا ہے“ڈاکٹرراحت اندوری نے اپنی بے باکانہ شاعری سے اردو ادب سے تعلق رکھنے والے ہر فرد کو متاثر کیا،ان کی رحلت سے ادب کی دنیا میں جو خلاءپیدا ہوا وہ شاید مدتوں پوری نہ ہوسکے، اپنی موت پر بھی انہوں نے یہ شہرہ آفاق شعر کہا تھا کہ ” دو گز ہی سہی، مگر میری ملکیت تو ہے، اے موت ! تو نے مجھ کو زمیندار کردیا“۔