عالمی وباءکورونا کی وجہ سے یوں تو دنیا بھر میںزندگی کے تمام شعبے متاثر ہوئے ہیں تاہم تعلیم کا شعبہ سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے۔ پاکستان میں وباءپھوٹنے کے ساتھ ہی مارچ کے دوسرے ہفتے میں تمام سرکاری و نجی سکول، مدارس، کالج ، یونیورسٹیاں اور کوچنگ سینٹرز بند کردیئے گئے، تمام امتحانات ملتوی کردیئے گئے میٹرک اور انٹرمیڈیٹ کے امتحانات ملتوی ہونے کی وجہ سے کالجوں میں داخلے بھی موخر کردیئے گئے،حکومت نے ملک کے لاکھوں طلبا کا قیمتی تعلیمی سال بچانے کے لئے پچھلے امتحانات کی بنیاد پر میٹرک اور انٹرمیڈیٹ کے نتائج تیار کئے۔نویں جماعت میں داخلے کے لئے آٹھویں کے نتائج اور دسویں جماعت کے نتائج گذشتہ سال نویں کے نتائج کی بنیاد پر مرتب کئے گئے اسی طرح گیارھویں جماعت کے نتائج گذشتہ سال میٹرک کے نتائج اور بارھویں کے نتائج فرسٹ ائر کے نتائج کی بنیاد پر تیار کئے گئے تمام طلبا کو تین فیصد گریس مارکس بھی دیئے گئے۔خیبر پختونخوا میں میڈیکل اور انجینئرنگ یونیورسٹیوں میں داخلوں کے لئے انٹری ٹیسٹ انہی نتائج کو سامنے رکھ کر لئے جارہے ہیں۔صوبے کے میڈیکل اور انجینئرنگ کالجوں میں داخلے کے لئے ان کا انٹری ٹیسٹ لیا جاتا ہے۔ جس کے لئے صوبائی حکومت نے 1998میں ایک آرڈیننس کے ذریعے ایجوکیشنل ٹیسٹنگ اینڈ ایوالویشن اتھارٹی (ایٹا) کے نام سے ایک خود مختار ادارہ قائم کیا تھا، یہ ادارہ ایک بورڈ آف گورنرز کے ماتحت ہے جس کا سربراہ صوبے کا وزیراعلیٰ ہوتا ہے بورڈ میں اعلیٰ تعلیمی کمیشن اور تعلیمی بورڈز کے نمائندے بھی شامل ہوتے ہیں۔شروع میںمیڈیکل اور انجینئرنگ کالجوں میں داخلے کے لئے میٹرک اور انٹرمیڈیٹ کے نتائج کے ساتھ انٹری ٹیسٹ کے نتائج کو ملاکر میرٹ لسٹ تیار کی جاتی تھی،دس فیصد نمبرمیٹرک، بیس فیصد انٹرمیڈیٹ اور 70فیصد انٹری ٹیسٹ کے نتائج کی بنیاد پر میرٹ لسٹ تیار ہوتی تھی۔
چند سال قبل یہ طریقہ کار تبدیل کردیا گیااور میٹرک کے نتائج کو میرٹ لسٹ میں نظر انداز کردیا گیا اب پچاس فیصد انٹرمیڈیٹ کے نتائج اور پچاس فیصد انٹری ٹیسٹ کے نتائج کی بنیاد پر میرٹ لسٹ تیار کی جاتی ہے۔اس طریقہ کار پر ماہرین تعلیم ، اساتذہ ، طلبا اور ان کے والدین کو تحفظات ہیں ان کا موقف ہے کہ میٹرک کا امتحان بنیاد کی حیثیت رکھتا ہے۔ تمام اداروں میں میٹرک کے نتائج کو بنیادی اہمیت حاصل ہے۔ بنیادی نتائج کو نظر انداز کرنے سے پیشہ وارانہ اداروں میں داخلے کے خواہش مند طلبا و طالبات کی حق تلفی ہوتی ہے اور میرٹ کی بنیاد پر چناﺅ بھی مشکوک ہوجاتا ہے۔نصابی سوالات پر مشتمل پیچیدہ انٹری ٹیسٹ لینے کا بنیادی مقصد طلباوطالبات کی صلاحیت کو چانچنا ہے میٹرک اور انٹرمیڈیٹ کے امتحانات میں نقل یا دیگر ذرائع سے زیادہ نمبر حاصل کرنے والے انٹری ٹیسٹ میں فیل ہوجاتے ہیں اور صرف وہی طلبا و طالبات انٹری ٹیسٹ کوالیفائی کرتے ہیں جنہوں نے نصاب کی پوری تیاری کے ساتھ امتحان دیا ہو۔اور اپنی قابلیت کی بنیاد پر نمبر حاصل کئے ہوں۔اساتذہ، طلبا اور والدین کا موقف ہے کہ اس بار بغیر امتحان لئے جو نتائج تیار کئے گئے ہیں اس کی بنیاد پر پیشہ ورانہ کالجوں میں داخلے دینا میرٹ کی پالیسی پر سمجھوتہ کرنے کے مترادف ہوگا۔ان کا مطالبہ ہے کہ میرٹ لسٹ کے لئے پرانا طریقہ کار بحال کیا جائے جس میں میٹرک کے دس فیصد، انٹرمیڈیٹ کے بیس فیصد اور انٹری ٹیسٹ کے ستر فیصد نمبرات کی بنیاد پر میرٹ لسٹ تیار کی جائے تاکہ پیشہ وارانہ کالجوں میں داخلوں کے لئے قابل اور اہل طلبا منتخب ہوسکیں اور ان طلبا و طالبات کی حق تلفی نہ ہو جنہوں نے گذشتہ امتحانات میں نمایاں نمبر حاصل کئے ہیں اور انہوں نے انٹری ٹیسٹ کے لئے دو سالوں سے تیاری کی ہے۔
طلبا نے وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا سے اپیل کی ہے کہ انٹری ٹیسٹ سے قبل بورڈ آف گورنرز کے اجلاس میں طلبا کے اس جائز مطالبے پر غور کریں۔طلبا کا یہ بھی مطالبہ ہے کہ انٹری ٹیسٹ میں پرچے آﺅٹ ہونے کے امکانات کو روکنے کے لئے ٹھوس اقدامات کئے جائیں گذشتہ سالوں میں ایسے ناخوشگوار واقعات کی وجہ سے نہ صرف طلبا کا قیمتی وقت ضائع ہوا بلکہ ایجوکیشنل ٹیسٹنگ اینڈ ایوالویشن اتھارٹی کی ساکھ کو بھی نقصان پہنچا ہے۔موجودہ حکومت میرٹ کی بالادستی کو اپنی اولین ترجیح قرار دیتی ہے حکومت نے شعبہ تعلیم سمیت مختلف اداروں میں میرٹ کی بالادستی کو یقینی بنانے کے لئے کافی اصلاحات بھی کئے ہیں اگر پیشہ وارانہ کالجوں میں داخلے کے طریقہ کار کو مزید شفاف بنانے کے لئے اصلاحات کی تجاویز پر غور کیا جائے تو اس میں کوئی مزائقہ نہیں۔اگر میرٹ کی پالیسی شفاف ہوجائے تو اہل اور باصلاحیت طلبا کوان کی محنت کا پھل مل جائے گا اور قوم کو زیادہ بہتر ڈاکٹر اور انجینئر میسر آئیں گے۔