تعلیم اور شعور کے ساتھ ’ذمہ داری کا احساس‘ قوموں کی شناخت و اساس بن جاتا ہے۔ اِسی سے صحت مند معاشرت کی پہل ہوتی ہے‘ جس کے باعث بیماریوں کو اپنی جگہ بنانے کا موقع نہیں ملتا۔ قومی ترقی اُسی وقت ممکن ہو سکتی ہے جبکہ صحت عامہ سے متعلق حکومت اور عوام کی سوچ ایک ہو اور اِسی سے قومی خوشحالی کے دور کا آغاز ہوتا ہے۔ غور طلب ہے کہ ترقی یافتہ مغربی ممالک میں کورونا وبا کا ممکنہ پھیلاو¿ روکنے کے لئے جس بڑے پیمانے پر احتیاطی تدابیر اختیار کی گئیں اور جس انداز میں جراثیم کش ادویات‘ صابن اور چہرہ ڈھانپنے کے لئے ماسک اِستعمال کئے گئے اُس سے ماحولیاتی آلودگی کے علاوہ کوڑا کرکٹ میں بھی اضافہ ہوا ہے‘ جس سے نمٹنے کے لئے مالی طور پر مستحکم مغربی حکومتوں کو کروڑوں ڈالر مختص اور خرچ کرنا پڑ رہے ہیں۔ برطانیہ امریکہ جرمنی فرانس اور یورپی یونین کے اُن سبھی ممالک میں کورونا وبا سے بچنے کے لئے استعمال ہونے والی اشیاءجس انداز میں گندگی پھیلنے کے سبب کے طور پر سامنے آئی ہیں‘ اُن کے مطالعے اور تحقیق سے یہ ’بیش قیمت نتیجہ‘ اخذ کیا گیا ہے کہ عوام کو وبا سے متعلق شعور دینا ہی کافی نہیں ہوتا بلکہ اُس سے بچاو¿ کے ساتھ ماحول دوست طور طریقے اپنانے کی اہمیت بھی بیان ہونی چاہئے تاکہ ایک مسئلے سے نمٹتے ہوئے کسی دوسرے بحران سے واسطہ نہ پڑے۔پاکستان کے طول و عرض‘ چھوٹے بڑے شہروں اور دیہی علاقوں کی کہانی ایک جیسی ہے۔ جہاں کبھی پلاسٹک سے بنے ہوئے شاپنگ بیگز اِدھر اُدھر اُڑتے اور نالے نالیوں میں پھنسے ملتے تھے اَب اُن کی جگہ ’فیس ماسکس نے لے لی ہے اور کوڑا کرکٹ میں اضافے کا باعث بننے والی یہ نئی گندگی نہ صرف ماحول دشمن ہے بلکہ یہ پلاسٹک کے شاپنگ بیگز سے بھی زیادہ لمبے عرصے تک ناقابل تحلیل گندگی ہے اور اِسے تلف کرنے کے روایتی طریقے یعنی زمین میں دبانے سے ختم نہیں ہوتے۔ چہرہ ڈھانپنے کے ماسک بنیادی طور پر پانچ قسم ہیں۔
جن میں سے پہلی تین قسم کے ماسک علاج معالجے کے مختلف مراحل میں استعمال ہوتے ہیں جبکہ تیسری اور چوتھی قسم کے صنعتی ماسک گردوغبار‘ فضائی آلودگی‘ آگ بجھانے کے عمل میں دھویں اور آنسو گیس یا کیمیائی گیسیوں سے بچنے کے لئے استعمال کئے جاتے ہیں۔ دس سے پندرہ روپے والا ’سرجیکل ماسک‘ ابتدائی طبی معائنے یا جراحت کے دوران استعمال کے لئے ہوتے ہیں‘ جنہیں صرف ایک ہی مرتبہ استعمال کر کے پھینک دیا جاتا ہے اور اِنہیں بار بار دھو کر استعمال نہیں کیا جاسکتا۔حال ہی میں نتھیاگلی‘ ٹھنڈیانی اور ایوبیہ جانے کا اتفاق ہوا‘ جہاں دس اگست سے سیاحوں کا ہجوم اور غول در غول آمد کا سلسلہ جاری ہے لیکن ایک فیصد سے بھی کم لوگ اُن قواعد و ضوابط کی پابندی کرتے دکھائی دیتے ہیں جو حکومت نے سیاحتی مقامات کے لئے اخذ کر رکھے ہیں۔ سرکاری دفاتر یا تجارتی مراکز میں ماسک پہنے بغیر داخلے پر پابندی کے اعلانات تو آویزاں ہیں لیکن اُن پر عمل درآمد ہوتا نظر نہیں آتا۔ جہاں ماسک بہ امر مجبوری استعمال کیا جاتا ہے تو اُسے تلف کرنے میں خاطرخواہ ذمہ داری دیکھنے میں نہیں آ رہی اور اِن روئیوں سے گندگی پھیل رہی ہے۔ سیاحت کے لئے آنے والے تصور بھی نہیں کرتے کہ اُن کا پھینکا گیا ایک ماسک جنگلی حیات بالخصوص بندروں کے لئے کس قدر جان لیوا ثابت ہو سکتا ہے۔
دوسری اہم بات یہ ہے کہ ایسے ماسک بھی مارکیٹ میں عام دستیاب ہیں جن کی ساخت انتہائی غیرمعیاری ہے اور یہ ایک مرتبہ بھی استعمال کرنے کے لائق نہیں ہوتے۔ اکثر کے ساتھ لگا دھاگہ ٹوٹ جاتا ہے اور اگرچہ ماسک کارآمد ہو بھی لیکن اُس کا دھاگہ ٹوٹنے کی وجہ سے اُسے پھینکنا پڑتا ہے‘کرہ ارض کے ماحولیاتی تنوع اور قدرت کے بنائے ہوئے حسن کو برقرار رکھنے اور اِس کے ساتھ زندہ رہنے کا سلیقہ سیکھنے کی ضرورت ہے اور یہ اہم کام جس قدر جلد اور جس قدر اجتماعی پیمانے پر کیا جائے گا اُسی قدر بہتر نتائج برآمد ہوں گے۔ ذہن نشین رہے کہ ماحول نے انسانوں کی مرضی کے مطابق تبدیل نہیں ہونا بلکہ اِس کے تحفظ اور بہتری کے لئے انسانوں کو اُس خصوصیت کا استعمال کرنا ہوگا جسے ”عقل“ کہا جاتا ہے اور یہی عقل اِنسانوں کو دیگر ہم زمین مخلوقات سے بہتر (اشرف) و ممتاز بناتی ہے۔ وقت ہے زمین اور ہم زمین مخلوقات کے مستقبل و موجودگی کا لحاظ کرتے ہوئے سوچ بچار پر مبنی خوداحتسابی سے کام لیا جائے۔