وفاقی حکومت نے اپریل میں پہلی تا پانچویں جماعت تک یکساں نصاب متعارف کرنے کا اعلان کردیا۔ وفاقی وزیر تعلیم شفقت محمود کا کہنا ہے کہ چھٹی تا آٹھویں جماعت تک یکساں نصاب 2022ءاور نویں تا بارہویں جماعت تک یکساں نصاب2023ءمیں رائج کیا جائے گا۔سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے تعلیم کے اجلاس سے خطاب میں وزیرتعلیم کا کہنا تھا کہ ہمارے ملک میں اس وقت تین نظام ہائے تعلیم رائج ہیں۔ پرائیویٹ سیکٹر میں چلنے والے انگلش میڈیم سکولوںمیں 60 سے 70 لاکھ بچے زیر تعلیم ہیں کم فیس والے سرکاری سکولوں میں70 فیصد بچے پڑھتے ہیں۔ تیسرا طبقہ مدارس کا ہے جہاںبچوں سے کوئی فیس نہیں لی جاتی، رہائش اور کھانا پینا بھی مفت ہے تاہم دینی مدارس میں صرف دینی تعلیم دی جاتی ہے ۔تعلیمی ادارے کھولنے سے متعلق نجی سکولوں کے فیصلے پر اپنے ردعمل میں وفاقی وزیرتعلیم کا کہنا تھا کہ15ستمبر سے پہلے سکول نہیں کھول سکتے۔ جو بھی سکول کھولے گا اس کیخلاف ایکشن لیا جائے گا۔طبقاتی نظام تعلیم انگریزوں سے ہمیں ورثے میں ملا ہے۔ غیر منقسم ہندوستان میں بھی یہی طبقاتی نظام تعلیم رائج تھا۔وہاں عام مسلمانوں کے بچے سرکاری سکولوں میں تعلیم حاصل کرکے صرف کلرک، ڈاکیہ ، چپڑاسی اور چوکیدار کی ملازمت حاصل کر سکتے تھے۔
سرسید احمد خان اور سرسلطان محمد شاہ نے اسی طبقاتی نظام تعلیم کے خلاف تحریک شروع کی اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی بنیاد رکھی۔قیام پاکستان کے بعد یہاں بھی غریبوں کے لئے سرکاری سکول اور مدارس کھولے گئے جبکہ جاگیر داروں، سرمایہ داروں، کارخانے داروں، بیوروکریٹس اوربڑے تاجروں کے بچے مہنگے پرائیویٹ سکولوں میں انگلش میڈیم میں تعلیم حاصل کررہے ہیں اور مقابلے کے امتحانوں میں انہی انگلش میڈیم سکولوں سے فارغ ہونے والوں کو ترجیح دی جاتی ہے۔طبقاتی نظام تعلیم ختم کرنے اور پورے ملک میں یکساں نصاب رائج کرنے کے دعوے تو اکثر حکومتوں نے کئے مگر ان وعدوں کو دانستہ طور پر عملی جامہ نہیں پہنایا کیونکہ وہ سٹیٹس کو کا نظام بدلنا نہیں چاہتی تھیں،ایوانوں میں بیٹھے جاگیر داروںاور سرمایہ داروں کو یہ گوارا نہیں تھا کہ کسی مزارع، کاشت کار، صنعتی مزدور، دیہاڑی دار اور بڑے لوگوں کے گھروں میں کام کرنے والوں کے بچے اعلیٰ تعلیم حاصل کرکے ان کی اجارہ داری کو چیلنج کریں۔موجودہ حکومت کا اصلاحاتی ایجنڈے کے تحت طبقاتی نظام ختم کرنے اور ملک بھر میں یکساں نظام تعلیم رائج کرنے کا فیصلہ بلاشبہ ایک انقلابی فیصلہ ہے تاہم اس مشن کی تکمیل میں حکومت کو بہت زیادہ مخالفت اور پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔ معاشرے کا بااثر طبقہ کبھی نہیں چاہے گا کہ غریبوں کے بچوں کو بھی معیاری تعلیم حاصل کرنے کے مواقع ملیں،پرائیویٹ تعلیمی اداروں میں پہلے سے انگریزی نصاب پڑھایا جارہا ہے ان کے لئے نئے نصاب سے خود کو ہم آہنگ کرنے میں زیادہ مشکلات کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔
تاہم حکومت کے سامنے ایک بڑی رکاوٹ سرکاری تعلیم اداروں کے اساتذہ ہیں۔سرکاری سکولوں کے 80فیصد اساتذہ خود سرکاری سکولوں سے پڑھ کر آئے ہیں وہ انگریزی نصاب پڑھانے کی اہلیت نہیں رکھتے،ہمارے ہاں تعلیم کا شعبہ سب سے بدقسمت شعبہ رہا ہے، ماضی میں رشوت اور سفارش کی بنیاد پر سرکاری سکولوں میں اساتذہ کی بھرتیاں ہوتی رہی ہیں۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یکساں نصاب رائج کرنے کے بعد کیا حکومت سرکاری سکولوں کے 80فیصد اساتذہ کو فارغ کرکے نئے اساتذہ بھرتی کرے گی یا موجودہ اساتذہ کو نئے نصاب پڑھانے کی تربیت دی جائے گی؟حکومت کے لئے دوسری پریشانی دینی مدارس میں عصری علوم کی تعلیم شروع کروانا ہے۔اگرچہ بعض مدارس نے دینی تعلیم کے ساتھ انگریزی زبان، ادب، ریاضی اور کمپیوٹر وغیرہ کو بھی نصاب میں شامل کیا ہے تاہم مدارس کی اکثریت ابھی تک عصری علوم کو نصاب میں شامل کرنے کے لئے تیار نہیں، اگر انگریزی کے ساتھ فزکس، بیالوجی، کیمسٹری ، پری میڈیکل اور پری انجینئرنگ کو بھی دینی مدارس کے نصاب میں شامل کیا گیا تو یہ مضامین مدارس میں کون پڑھائیں گے؟یکساںنصاب تعلیم کا اجراءاس قوم کا دیرینہ خواب ہے تاہم اس خواب کو تعبیر کا جامہ پہنانے میں عجلت کا مظاہرہ کرنا مناسب نہیں، بلکہ پوری تیاری کے ساتھ یہ کام سرانجام دینا چاہئے تاکہ حکومت کی طرف سے نصاب کے اجراءکے ساتھ اس پر بلاتعطل عمل درآمد بھی شروع ہوسکے۔