وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے صحت ڈاکٹر فیصل سلطان نے اِس خطرے کا اظہار کیا ہے کہ پاکستان میں کورونا سے متاثرہ مریضوں کی تعداد میں ”اچانک“ اضافہ ہو سکتا ہے اگر اِس وبا کی موجودگی کو سنجیدگی سے نہ لیا گیا اور اِس سے محفوظ رہنے کے لئے سماجی فاصلہ برقرار رکھنے اور دیگر حکومتی حفظ ما تقدم قواعد پر عمل درآمد نہ کیا گیا تو اندیشہ ہے کہ کورونا سے متاثرین کی تعداد بڑھنا شروع ہو جائے گا۔ لمحہ¿ فکریہ ہے کہ کورونا وائرس تبدیل شدہ شکل میں ظاہر ہوا ہے اور ماضی میں جن عمومی ادویات یا ٹوٹکوں سے اِس کی شدت کم ہو جاتی تھی وہ اب کارآمد نہیں رہے۔ طبی امور کے ماہرین بار بار اِس جانب توجہ دلاتے رہے کہ عوام ازخود ادویات استعمال نہ کریں اور نہ ہی کورونا علامات ظاہر ہونے کے بعد ازخود ادویات خرید کر استعمال کریں اور ایسے گھریلو ٹوٹکوں کو نہ آزمایا جائے جن کا ادویات کے ساتھ استعمال سے مرض کی شدت میں بظاہر کمی لیکن اِس کا سبب بننے والے جرثومے کی طاقت میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ طبی ماہرین بے بس ہیں۔ کورونا وبا‘ دوسری مرتبہ اور پہلے سے زیادہ طاقت کے ساتھ واپس آ چکی ہے۔ حکومت کی جانب سے سیاحتی مقامات کھولے گئے تو وہاں جانے والوں نے احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کو ضروری نہیں سمجھا۔ کاروباری مراکز‘ ہوٹلوں اور گیسٹ ہاو¿سز نے جن حکومتی قواعد کو تسلیم کرنے کا عہد کیا تھا‘ اُن کی کھلم کھلا خلاف ورزیاں دیکھنے میں آئیں اور نتیجہ سب کے سامنے ہے کہ سترہ اگست کے روز ہزارہ ڈویژن کے بالائی علاقوں پر مشتمل ’گلیات سرکل‘ سے ایک ہی روز میں 82 افراد میں کورونا کی تصدیق ہوئی۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ مرکزی شہروں میں تو سینکڑوں بستروں پر مشتمل خصوصی کورونا وارڈز ہیں لیکن دور دراز علاقوں میں آٹھ دس یا زیادہ سے زیادہ بیس بستروں پر مشتمل خصوصی وارڈز تشکیل دی گئی ہیں جن میں سبھی بستروں پر آکسیجن اور وینٹی لیٹرز بھی دستیاب نہیں۔ ایسی صورت میں اگر ایک ہی دن میں 82 مریض کسی ہسپتال سے رجوع کریں گے تو اُنہیں پہلے سے موجود مریضوں کے ساتھ کس طرح طبی سہولیات فراہم کی جائیں گی۔
دس اگست کے بعد نتھیاگلی‘ ٹھنڈیانی اور ایوبیہ جیسے معروف اور دیگر کم معروف سیاحتی مقامات کی سیروتفریح کرنے والوں کو چاہئے کہ وہ اپنے شہروں کو واپس لوٹنے کے بعد زیادہ احتیاط سے کام لیں اور کم سے کم دس روز تک خود کو اُن تمام اہل خانہ یا دوست احباب سے الگ تھلگ رکھیں‘ جو اُن کے ہمراہ نہیں تھے۔کورونا وبا اچانک ختم نہیں ہوگی بلکہ قانون قدرت ہے کہ اِس کے لئے علاج تلاش کرنا پڑے گا‘ جس کے بارے میں رہنمائی موجود ہے کہ ایسی کوئی بھی بیماری نمودار نہیں ہوتی‘ جس کا علاج پہلے سے موجود نہ ہو۔ پاکستان جیسے ملک میں جہاں ہسپتالوں میں حسب آبادی بستر اور معالجین موجود نہیں وہاں کس طرح اُمید کی جاسکتی ہے کہ حکومت کسی بیماری کا علاج دریافت کرنے کے لئے اربوں روپے تحقیق پر خرچ کرے گی اور پھر کسی نئے علاج کی دریافت کے لئے طبی تحقیق دنوں ہفتوں یا مہینوں کی بات نہیں ہوتی بلکہ اِس کے لئے سالہا سال اور کئی دہائیوں تک تحقیق کرنا پڑتی ہے۔ وجہ یہ ہے کہ ہر بیماری کا سبب بننے والے جرثومے اپنی ساخت اور حملہ کرنے کی صلاحیت میں تبدیلیاں کرتے رہتے ہیں اور اُن کے خلاف ہمیشہ کے لئے کوئی ایک طریقہ¿ علاج اور ادویات کارگر نہیں ہوتے۔ بہرحال یہ ایک علمی نکتہ اور شعوری منزل ہے کہ بیماری کے علاج اور اِس کی شدت سے بچنے کے لئے صرف اور صرف مستند معالجین کا مشورہ بصد احترام و شکریہ قبول کیا جائے۔یہ اَمر بھی ذہن نشین رہے کہ حکومت کسی بھی سیاسی یا غیرسیاسی گروہ کی ہو‘ اُس کا کہا ’ذمہ دارانہ‘ ہوتا ہے اِس لئے اگر کوئی بات حکومت کی طرف سے کہی جا رہی ہو تو اُس کا مذاق اُڑانے کی بجائے سنجیدگی سے سننا اور عمل کرنا چاہئے۔
طبی ماہرین جس ایک نکتے کی طرف بار بار اشارہ کر رہے ہیں اُس کا تعلق انتظامی معاملات سے ہے کہ ادویات کی بنا ڈاکٹری نسخے فروخت کی حوصلہ شکنی ہونی چاہئے۔ سردست معاملہ یہ ہے کہ ادویات فروش کرنے والے نہ صرف ادویات تجویز کرتے ہیں بلکہ وہ بنا ڈاکٹری نسخے ادویات فروخت بھی کر رہے ہیں کیونکہ اُن کے لئے یہ ایک کاروبار ہے اور کاروبار میں سرمایہ کاری زیادہ سے زیادہ منافع کے لئے کی جاتی ہے۔ ادویات فروشی اور ادویات ذخیرہ کرنے سے متعلق حکومتی قواعد پر کس قدر عمل درآمد ہوتا ہے اور اِس عمل درآمد نہ ہونے کی وجہ سے کیا خرابیاں پیدا ہو رہی ہیں‘ اِس حوالے سے قواعدوضوابط‘ حکمت عملی اور انتظامی نظم و نسق بارے غوروخوض ہونا چاہئے۔ کورونا وبا کا دوسرا دور درحقیقت دوسرا حملہ ہے اور چونکہ اب تک اِس بیماری کا کوئی بھی علاج (ویکسین) دریافت نہیں ہوئی اِس لئے دفاعی حکمت اختیار کرنا ہی سردست واحد حل ہے۔