ٹمبرمافیاکی دہشتگردی

 ابھی چند دن قبل ایک دوست نے ویڈیو شیئر کی ہے جوکسی سیاح نے ملم جبہ میں بنائی ہے جس میں صاف طورپر دیکھاجاسکتاہے کس طرح درختوں کے تنوں کو جڑوں کے قریب سے کلہاڑیوں کی مدد سے نیم طورپر کاٹا گیا ہے بعدازاں ان درختوں کے زخمی مقامات پر آگ جلاکر ان کو سوکھنے کے لیے چھوڑدیا جاتاہے اورپھر ان کو جلے ہوئے درخت ظاہر کرکے کاٹ دیاجاتاہے یہ تو ایک طویل عمل ہے جبکہ ا سکے ساتھ ساتھ براہ راست کٹائی کے حوالہ سے بھی شکایات مسلسل سامنے آرہی ہیں خاص طور پر چندماہ قبل ملاکنڈ ڈویژن میں صورت حال بہت خراب ہوچکی تھی بعدازاں معاملہ کاوزیر اعلیٰ نے خودنوٹس لیا تو بہت سے تلخ حقائق سامنے آئے بدقسمتی سے درختوں کے قتل عام کے مسلسل واقعات کے باوجود ابھی تک کسی بھی بڑے سرکاری افسر کو قرارواقعی سزانہیں دی جاسکی ہے جس کی وجہ سے درخت دشمنوں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ اور ان کی حوصلہ افزائی ہورہی ہے اگرچہ گزشتہ دنوں ایک اعلیٰ سطحی اجلاس کے موقع پر وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا محمود خان نے جنگلات کی حفاظت اور درختوں کی غیر قانونی کٹائی کی مکمل روک تھام کو اپنی حکومت کی اہم ترجیحات میں سے ایک قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس مقصد کے لئے محکمہ جنگلات کو تمام تردرکار مالی اور انسانی وسائل فراہم کئے جائیں گے۔

 انہوں نے محکمہ جنگلات کے حکام کو ہدایت کی کہ درختوں کی غیر قانونی کٹائی میں ملوث عناصر کو سخت سے سخت سزائیں دینے اور ان پر بھاری سے بھاری جرمانے عائد کرنے کے لئے متعلقہ قوانین میں ضروری ترامیم کے علاوہ دیگر تمام ضروری اقدامات کیے جائیں۔ تاہم امر واقعہ یہ ہے کہ درختوں کے دشمن اب بھی آزاد ہیں ڈویژنل سربراہ کے ساتھ ساتھ ضلعی انتظامی سربراہ کو جب تک ا س معاملہ میں جوابدہ بناکر ان کو ناقص کارکردگی کی صورت میں کھڈے لائن نہیں لگایا جاتا اصلاح احوال کی امید کم ہی رکھی جاسکتی ہے صوبہ خیبرپختونخوا جنگلات کے حوالہ سے ملک بھر میں مشہور رہا ہے، ایبٹ آباد، مانسہرہ،نتھیا گلی جملہ گلیات ، کاغان، ناران، سوات، دیر، چترال، ضلع خیبر کے تیراہ اور اس سے ملحقہ علاقے، شمالی و جنوبی وزیرستان ، پارا چنار دیگر پہاڑی علاقے جنگلات کے حوالے سے خاصے مشہور تھے لیکن بد قسمتی سے سابقہ حکومتوں نے جنگلات کے تحفظ کےلئے سنجیدہ اقدامات نہیں کئے اور ٹمبر مافیا نے بے دردی کے ساتھ جنگلات کی کٹائی شروع کردی رہی سہی کسر افغان مہاجرین نے پوری کردی جنگلات کی بے دریغ کٹائی سے ہمیں ماحولیاتی خطرات سے دو چار کردیا ماضی میں جنگلات کے فروغ کی طرف سنجیدہ توجہ نہیں دی گئی پہلی بار جب پاکستان تحریک انصاف کی حکومت قائم ہوئی تو اس نے صوبہ میں بلین ٹریز سونامی کے نام سے ایک منصوبہ شروع کرکے صوبہ بھر میں ایک ارب پودے لگانے کا ہدف مقرر کیا تھا۔

 جس کے مقابلے میں ایک ارب 20 کروڑ پودے لگائے گئے جبکہ سرکاری ذرائع کے مطابق قومی سطح پر دس ارب پودے لگانے کے ٹین بلین ٹری پراجیکٹ کے تحت اب تک صوبے میں 20کروڑ پودے لگائے اور اُگائے جاچکے ہیں موجودہ حکومت کے ان اقدامات کے نتیجے میں صوبے میں جنگلات کے مجموعی رقبے میں 6.3 فیصد کا اضافہ ہوا ہے اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ ،شجرکاری مہم کے ذریعے ہم ماحولیاتی چیلنجز سے بخوبی نبرد آزما ہو سکتے ہیں لیکن اس کے لئے ضروری ہے کہ اولاً ٹمبر مافیا کو لگا دی جائے ثانیاً عوام کا تعاون حاصل کیا جائے ،کیونکہ جب تک موجودہ جنگلات کی حفاظت کاخاطرخواہ انتظام نہیں کیاجاتا نئے پودے لگانے کی مہم کے مثبت نتائج کی امید بھی کم ہی رکھی جاسکتی ہے حکومت کاکہناہے کہ خیبرپختونخوا میں بلین ٹری سونامی کے تیسرے فیز میںگزشتہ دو سالوں کے دوران صوبہ کے مختلف اضلاع میں11ارب روپے خرچ کئے گئے ہیں۔

 2لاکھ 27ہزار ایکڑ اراضی پر پودے لگائے گئے ہیں جبکہ اس سال فیز تھری کے لئے ایک ارب روپے رکھے گئے ہیں امید رکھی جانی چاہئے کہ شجرکاری کا موجودہ ہدف با آسانی حاصل کرلیا جائے گا تاہم دیہی اور پہاڑی علاقوں میں اگر کسان اور زمینداروں کی حوصلہ افزائی کی جائے اور پھلدار پودے لگانے کی طرف ان کی توجہ مرکوز کی جائے تو اس سے ان کسانوں کو آنے والے سالوں میں مالی فائدہ بھی پہنچے گا اور یہاں کے عوام کو سستے داموں پھل بھی مل سکیںگے اس کے لئے محکمہ جنگلات اور زراعت کے حکام کا تعاون با آسانی حاصل کیا جا سکتا ہے مگر سب سے ضروری امریہ ہے کہ ٹمبر مافیا کو نشان عبرت بنانے کے لیے اقدامات اور اس سلسلہ میں ضروری قانون سازی کی جائے جس علاقہ میں درختوں کو دہشت گردی کانشانہ بنایا جاتاہے اس کے کمشنر کو کھڈے لائن لگانے کی بجائے کسی اور بڑے ڈویژن کے معامات سونپے جانے کی روایت ختم نہیں کی جائے گی ٹمبر مافیا کو لگام دینے کاخواب کسی بھی صورت شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکتا ۔