متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کے درمیان باہمی تعلقات کو فروغ دینے کا معاہدہ طے پاگیا ہے۔معاہدے کے تحت اسرائیل مزید فلسطینی علاقے ضم نہیں کرے گا اور دو طرفہ تعلقات کے لیے دونوں ممالک مل کر روڈ میپ بنائیں گے سعودی عرب، ترکی ، ایران اور پاکستان سمیت اسلامی ملکوں نے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کرنے کے متحدہ عرب امارات کے فیصلے پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔امریکی حکام نے انکشاف کیا ہے کہ عرب امارات کی تقلید کرتے ہوئے مزیدعرب ممالک عنقریب اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کریں گے امریکی حکام کے مطابق صیہونی ریاست سے تعلقات قائم کرنے والا اگلا ملک بحرین ہو گا۔ ترکی نے اسرائیل کے ساتھ امن معاہدے کو منافقانہ طرز عمل قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ تاریخ اور خطے کے لوگ اس معاہدے کو کبھی فراموش نہیں کر پائیں گے۔ایران نے متحدہ عرب امارات کے اسرائیل سے تعلقات بحال کرنے کی شدید مذمت کی ہے۔ایرانی وزارت خارجہ کے مطابق یہ اقدام ابو ظہبی اور تل ابیب کی طرف سے سٹریٹجک حماقت ہے، اس اقدام سے خطے میں مزاحمت اور مضبوط ہوگی۔ایرانی وزارت خارجہ کا کہنا ہے کہ فلسطینی عوام اسرائیل کے ساتھ تعلقات بحالی کو کبھی معاف نہیں کریں گے۔ اس سے قبل اردن اور مصر بھی اسرائیل کو تسلیم کر چکے ہیں۔
پاکستان نے متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کے مابین تعلقات کو معمول پر لانے سے متعلق معاہدے پر رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس پیشرفت کے دور رس اثرات مرتب ہونگے۔ ترجمان دفتر خارجہ نے کہاکہ پاکستان فلسطینی عوام کے حق خودارادیت اور جائز حقوق کی مکمل حمایت کرتاہے۔ مشرق وسطی میں امن و استحکام پاکستان کی اولین ترجیح ہے۔ترجمان نے کہا کہ پاکستان منصفانہ ، جامع اور دیرپا امن کے لئے اقوام متحدہ اور او آئی سی کی متعلقہ قراردادوں اور بین الاقوامی قوانین کے مطابق ریاستی حل کی حمایت کرتا ہے۔مسلمانوں کے قبلہ اول مسجد اقصیٰ پر طاقت کے بل بوتے پر قبضہ کرنے اور فلسطینی مسلمانوں پر نصف صدی سے عرصہ حیات تنگ کرنے والی صیہونی ریاست نے سب سے زیادہ عرب ملکوں کو نقصان پہنچایا ہے۔امریکی سرپرستی میں قائم صہیونی ریاست پورے عالم اسلام کے لئے خطرہ ہے۔ فلسطین کے لوگ عرب نسل سے تعلق رکھتے ہیں فلسطین کی آزادی کے لئے جتنی قربانیاں دی گئی ہیں اسرائیل کو تسلیم کرنا شہدائے فلسطین کے خون کا سودا کرنے کے مترادف ہے۔اسرائیل امارات معاہدے سے ظاہر ہوتا ہے کہ مشرق وسطیٰ پر امریکہ نے کس قدر اپنا کنٹرول مضبوط بنایا ہے۔عرب ممالک کے حاکموں کو مسلمانوں کے مفادات سے زیادہ اپنا اقتدار عزیز ہے اور اپنی بادشاہت کی بقاءکے لئے وہ کچھ بھی کرسکتے ہیں۔
ان کی اس کمزوری کا امریکہ نے بھرپور فائدہ اٹھایا، پہلے عرب ملکوں میں امن وامان کا مسئلہ پیدا کیا، جب صورتحال موروثی بادشاہوں کے قابو سے باہر ہونے لگی تو امریکہ نے ان کے سامنے سیاسی استحکام میںتعاون کے لئے اسرائیل کو تسلیم کرنے کا مطالبہ پیش کیا۔عجب نہیں کہ آنے والے مہینوں اور سالوں کے اندر مزید دو چار عرب ممالک بھی اسرائیل کو تسلیم کریں۔مشرق وسطیٰ میں قیام امن اور فلسطینی کاز کے لئے پاکستان نے بھی قابل قدر خدمات انجام دی ہیں، اسرائیل کو تسلیم کرکے عرب امارات نے پاکستان کو بھی مشکل میں ڈال دیا ہے۔ پاکستان کھل کر عرب امارات کی مذمت بھی نہیں کرسکتا کیونکہ پاکستان کے بھی متحدہ عرب امارات کے ساتھ مالی مفادات وابستہ ہیں اور لاکھوں کی تعداد میں پاکستانی وہاں روزی روٹی کما رہے ہیں یہی وجہ ہے کہ پاکستان نے نپے تلے انداز میں نہایت محتاط ردعمل کا اظہار کیا ہے۔چارہ گر جب خود ہی بیچارے نظر آنے لگیں تو پاکستان ، ایران، ترکی، ملائشیا اور انڈونیشیا بیان بازی کے سوا کیا کرسکتے ہیں۔اگر عرب امارات اور اسرائیل کے معاہدے سے مشرق وسطیٰ میں کشیدگی کا خاتمہ ہوتا ہے اور پائیدار امن قائم ہوتا ہے تو اس کا امکان بہت کم ہے کیونکہ عرب امارات کے ساتھ امن معاہدے کی سیاہی خشک ہونے سے قبل ہی اسرائیلی وزیراعظم نتھن یاہو کا بیان سامنے آیا ہے کہ وہ مغربی کنارے کو اسرائیل میں ضم کرنے کے فیصلے سے ایک انچ بھی پیچھے نہیں ہٹے گا۔نتھن یاہو کے اس بیان سے اسرائیل کے توسیع پسندانہ عزائم کھل کر سامنے آگئے ہیں۔