پہلی حقیقت: پاکستان میں قریب 2 کروڑ 26 لاکھ (22.6 ملین) بچے جن کی عمریں پانچ سے سولہ برس کے درمیان ہیں تعلیمی اداروں سے استفادہ نہیں کر رہے۔ اِن بچوں میں اکثریت لڑکیوں کی ہے۔ سکولوں سے باہر بچوں میں 44 فیصد لڑکے اور 56فیصد لڑکیاں ہیں‘ جس کا مطلب یہ ہے کہ بچوں کا تعلیم حاصل کرنے جیسے بنیادی و آئینی حق کی خاطرخواہ ادائیگی نہیں ہو رہی اور اِس پوری صورتحال کا زیادہ تاریک پہلو یہ ہے کہ لڑکیاں سب سے زیادہ تعلیم سے محروم ہیں۔تیسری حقیقت: لڑکیوں کی تعلیم کرنے کو خلاف شرعی سمجھنے والوں کی بڑی تعداد پسماندہ اور دور دراز علاقوں میں پائی جاتی ہے‘ جہاں حکومت کی رٹ کمزور ہوتی ہے اور قومی سیاسی جماعتیں بھی ایسے عناصر کی پشت پناہی کرتی ہیں جو لڑکیوں کی تعلیم کے بارے میں انتہا پسند مو¿قف رکھتے ہیں۔ اگر سیاسی و انتخابی ترجیحات (مفادات) کو پیش نظر رکھنے کی بجائے قومی ذمہ داری کو محسوس کیا جائے تو ایسے عناصر اور سوچ کی مخالفت کرنی چاہئے جو لڑکیوں کی تعلیم کی مخالفت کے ساتھ‘ اُن کی بنا تعلیم کم عمری میں شادیاں کرنے کی حامی ہے۔ سمجھنا ہوگا کہ غربت و پسماندگی کا خاتمہ اُس وقت تک ممکن نہیں جب تک آبادی کے نصف سے زیادہ طبقے (خواتین) کو تعلیم کے ذریعے مردوں کے شانہ بشانہ کردار ادا کرنے کے لئے تعلیم و تربیت کے مراحل سے گزارا نہیں جاتا۔
تعلیم کسی بھی انسان کی شخصیت و کردار سازی کے ساتھ اُس میںاعتماد لاتی ہے اور مشکل معاشی حالات میں اُسے خودکفیل رکھتی ہے۔ ذہن نشین رہے کہ سال 2017ءمیں عسکریت پسندوں نے لڑکیوں کے 900 سکول بند کئے تھے جن کی وجہ سے 1 لاکھ 20 ہزار لڑکیاں تعلیم سے محروم ہو گئی تھیں اور اِن 900 سکولوں میں سے بہت کم بحال ہو سکے!چوتھی حقیقت: لڑکیوں کی تعلیم کی راہ میں حائل سب سے بڑی رکاوٹ اُن کے لئے مخصوص تعلیمی اداروں کی کمی ہے اور پاکستان کے مخصوص ثقافتی و سماجی منظرنامے کو ذہن میں رکھتے ہوئے ضرورت اِس بات کی ہے کہ صرف اور صرف لڑکیوں کے لئے مخصوص تعلیمی اداروں کی تعدادمیں حسب آبادی تناسب سے اضافہ کیاجائے۔ تصور کیجئے کہ پاکستان میں پرائمری تعلیم کے اداروں کی کل تعداد 1لاکھ 63 ہزار ہے جن میں صرف 40ہزار طالبات کے پرائمری سکولز ہیں۔پانچویں حقیقت: شہروں کی نسبت دیہی علاقوں میں لڑکیوں کی تعلیم کے مواقع سب سے کم ہیں اور یہی وجہ ہے کہ شہری علاقوں کی بجائے دیہی علاقوں میں خواتین میں شرح خواندگی کم یعنی 38 فیصد ہے۔
مذکورہ پانچ حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے ”لڑکیوں کا تعلیم پر حق اور اِس تک رسائی“ جیسے سوالات ”قومی بحث“ کا حصہ ہونے چاہیئں اور یہ مسئلہ صرف پاکستان ہی کا نہیں بلکہ دنیا کے لئے چیلنج بنا ہوا ہے‘ ماہرین کا خیال ہے کہ لڑکیوں کو سکولوں میں لانے کا بہترین طریقہ تعلیم کے اخراجات کم کرنا اور سماجی ماحول کو سمجھتے ہوئے اُنہیں تعلیمی اداروں تک رسائی فراہم کرنا ہے۔ انٹرنیٹ پر منحصر ”آن لائن تعلیم“ کے امکانات اِس سلسلے میں کلیدی کردار ادا کر سکتے ہیں اور لڑکیوں کے لئے ہر محلے میں سکول بھی قائم کئے جا سکتے ہیںلیکن اگر انٹرنیٹ کی صورت آنے والے انقلاب کو سمجھ لیا جائے اور اِس سے استفادہ کرنے کے لئے قومی حکمت عملی وضع کرتے ہوئے ترجیحات طے کی جائیں۔ خود بخود کچھ بھی تبدیل نہیں ہوگا۔ پاکستان میں لڑکیوں کی تعلیم اور خواتین کی خواندگی مالی طور پر مستحکم گھرانوں میں بلند ہے جبکہ کم مالی وسائل رکھنے والے یا غربت زدہ گھرانوں میں خواتین کی تعلیم پر بہت کم توجہ دی جاتی ہے جبکہ یہی وہ کھلا راز ہے کہ اگر اِسے سمجھ لیا جائے تو غربت کی شرح میں غیرمعمولی کمی لائی جا سکتی ہے۔