اب سمارٹ فون کا کیمرہ ذٰیابیطس کا ڈاکٹر بن کر نہایت درستگی سے ٹائپ ٹو قسم کی شوگر یا ذیابیطس کا سراغ لگاسکتا ہے۔
یونیورسٹی آف کیلیفورنیا، سان فرانسسکو (یوسی ایس ایف) کے ماہرین نے ایک نئے طریقے سے اسمارٹ فون کیمرے کو اس قابل بنایا ہے کہ وہ ٹائپ ٹو ذیابیطس کی 80 فیصد درستگی سے شناخت کرسکتا ہے۔ جامعہ سے وابستہ سائنسداں رابرٹ اورام اور ان کے ساتھیوں نے ذیابیطس کی شناخت کے لیے ایک خاص الگورتھم بنایا ہے جو کیمرے کی مدد سے ذیابیطس کا نشاندہی کرتا ہے۔
اس عمل کو طب کی زبان میں ’فوٹوپلائتھس موگرافی‘ ( پی پی جی ) کہا جاتا ہے۔ اس تکنیک میں روشنی کو کسی کھال یا بافت (ٹشو)پر ڈالا جاتا ہے جس سےخون کے حجم میں کمی بیشی کو نوٹ کیا جاتا ہے۔ واضح رہے کہ عین اسی طریقے سے شہادت کی انگلی پر سینسر لگا کر خون میں آکسیجن کی مقدار اور دھڑکن کو معلوم کیا جاتا ہے۔
اس کے لیے پہلے ایک الگورتھم بنایا گیا اور پھر غور کیا گیا آیا اسمارٹ فون کیمرہ ذیابیطس کی وجہ سے خون کی رگوں کو پہنچنے والے کسی نقصان یا تباہی کو ظاہر کرسکتا ہے یا نہیں؟ پھر پی پی جی کی لاکھوں ریکارڈنگ کو ایک بڑے ڈیٹا بیس میں رکھا گیا اور انہیں تربیت دی گئی تاکہ وہ صحت مند اور بیمار بافتوں کے درمیان فرق کرسکے۔ اس کے بعد پی پی جی ٹیکنالوجی کو ذبابیطس کی شناخت کے لئے استعمال کیا گیا۔
اس پورے تجربے میں کل 53 ہزار سے زائد 26 لاکھ پی پی جی ریکارڈنگز کو دیکھا گیا اور تمام افراد میں ذیابیطس کی درست شناخت ہوئی۔ دوسرے تجربے میں لوگوں کے تین گروہوں کا اسمارٹ فون کیمرے سے جائزہ لیا گیا اور ان کی انگلیوں پر کیمرے لگائے گئے۔ پورے سسٹم 80 فیصد درستگی کے ساتھ ذیابیطس کی شناخت کی۔
اس طرح ماہرین نے اسے کم تکلیف والا ایک مؤثر ٹیسٹ قرار دیاہے جس کی بدولت عام اسمارٹ فون کے ذریعے ذیابیطس کی شناخت کی جاسکتی ہے۔