وفاقی حکومت نے گلگت بلتستان میں گلاف حفاظتی پراجیکٹ فوری طور پرشروع کرنے کا اعلان کیا ہے حکومت کا موقف ہے کہ گرم موسمی حالات کے باعث گلگت بلتستان کے چند علاقوں میں پگھلتے گلیشیئرز نے مقامی آبادی کےلئے خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے۔ بگروٹ ‘ یاسین‘ ہنزہ‘ نگر‘ شگر، گانچھے اورگلگت کے دیگر علاقے متاثر ہونے کا خدشہ ہے۔ وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے ماحولیات امین اسلم کا کہنا ہے کہ گلاف حفاظتی پراجیکٹ اقوام متحدہ کے تعاون سے شروع ہو گا‘ منصوبے پر 6 ارب روپے کی لاگت آئےگی۔ 3 ارب روپے کی لاگت سے 50گلیشیئر مانیٹرنگ سٹیشن قائم کئے جائینگے سیلابی پانی کی مانیٹرنگ کیلئے400خصوصی سٹیشنز بھی قائم ہونگے 1.5 ارب روپے براہ راست مقامی کمیونٹی کوفراہم کیے جائینگے‘پراجیکٹ کے تحت10لاکھ کے قریب مقامی افراد کو براہ راست فائدہ ہو گا 2015 ءمیں خطرناک گلیشیئرز کی تعداد صرف33 تھی،آج خطرناک گلیشیئرز کی تعداد 133 ہوچکی ہے‘موسمیاتی تغیرات سے گلیشئرز پگھلنے کے خطرات سے گذشتہ دس سالوں سے متعلقہ ادارے حکومت کو آگاہ کرتے رہے ہیں‘ یہ خطرہ صرف گلگت بلتستان میں ہی درپیش نہیں‘بلکہ چترال‘سوات‘دیر‘کاغان‘ناران میں بھی سیلاب کے خطرات موجود ہیں 2010میں سوات میں گلیشیرز پھٹنے سے دریائے سوات میں طغیانی آئی تھی جس نے نہ صرف خیبر پختونخوا بلکہ پورے ملک میں بڑے پیمانے پر تباہی مچا دی،چترال میں یارخون‘لاسپور‘سنوغر‘ نیسور گول‘بونی‘ آوی‘ تریچ‘بروم گول‘ بندوگول‘ گولین گول‘ کوغذی ‘ کریم آباد‘ گرم چشمہ‘ شیشی گول‘ بمبوریت‘ جنجریت‘ دامیل،سوئر اور ارندو کے علاقے بھی خطرناک گلیشیرز کی زد میں ہیں۔
گزشتہ چند سالوں کے اندر تباہ کن سیلاب سے ایون‘ ریشن‘ سنوغر‘ کھوژ‘ بریپ‘ گولین‘ دنین‘ چترال ٹاون‘بروز اور شیشی کوہ میں بڑے پیمانے پر جانی و مالی نقصانات ہوئے ہیں اور متاثرین کی اکثریت ابھی تک بحالی کے لئے حکومت کی طرف سے امداد کی منتظر ہے۔ہمارے ہاں آفات کو روکنے کی پیش بندی کرنے کی کوئی روایت نہیں، جب آفت نازل ہوتی ہے تب جان بچانے کےلئے ہاتھ پاﺅں مارے جاتے ہیں جانی و مالی نقصانات پر افسوس کا اظہار کیا جاتا ہے اور آئندہ کےلئے ایسے نقصانات سے بچنے کی ضرورت پر زور دیا جاتا ہے جب آفت سر سے گزر جائے تو ہم سب کچھ بھول جاتے ہیں۔گلوبل وارمنگ کی وجہ سے دنیا کے وہ تمام ممالک خطرے کی زد
میں ہیں جہاں گلیشیرز موجود ہیں اقوام متحدہ اور دیگر ادارے موسمی تغیرات سے ہونےوالے نقصانات سے بچنے کےلئے منصوبے بنارہے ہیں پاکستان کے شمالی علاقہ جات میں گلیشیرز پھٹنے کے خطرات سے بھی عالمی اداروں نے آگاہ کیا ہے اور حفاظتی اقدامات کےلئے انہوں نے مالی اور فنی معاونت کی پیش کش کی ہے۔حکومت کو اس موقع کا بھرپور فائدہ اٹھانا چاہئے اور خطرناک گلیشیرز کے حامل تمام شمالی اور شمال مغربی علاقوں میں حفاظتی انتظامات شروع کرنےکی منصوبہ بندی کرنی چاہئے بین الاقوامی تعاون سے گلاف کے ادارے پہلے ہی چترال، سوات اور گلگت بلتستان میں محدود پیمانے پر کام کر رہے ہیں۔
ان کے پاس خطرناک گلیشیرز کے حوالے سے ٹھوس معلومات اور اعدادوشمار موجود ہیں انہوں نے مختلف علاقوں میں گلیشیرز کو محفوظ بنانے کے محدود پیمانے پر منصوبے بھی شروع کئے تھے۔حکومت ان کے تحقیقی کام سے بھی استفادہ کرسکتی ہے چترال‘سوات‘گلگت‘ ہنزہ‘ گانچھے‘ سکردو اور کوہستان کے علاقے گھاٹیوں پر مشتمل ہیںمختلف ندی نالوں سے گلیشیرز کا پانی بہہ کر آتا ہے جس سے دریا کنارے ہموار زمین کو آباد کرکے لوگوں نے وہاں بسیرا کررکھا ہے وادی میں بکھرے ہوئے دیہات کےلئے لائف لائن کی حیثیت رکھنے والے ان ندی نالوں میں گلیشیرز پھٹنے ، طوفانی بارش یا آسمانی بجلی گرنے سے جب سیلاب آتا ہے تو زیریں علاقوں میں رہائشی مکانات‘ باغات‘ فصلیں‘گائے‘ بیل اور بھیڑ بکریاں اس کی زد میں آتی ہیں اور برسوں کی محنت پرچندساعتوں میں سیلاب پھیر جاتا ہے۔جب آفت ٹل جاتی ہے تو حکمران اور سرکاری افسران علاقے کا دورہ کرتے ہیں بچ جانے والے لوگوں میں کچھ غذائی اجناس اور امدادی سامان تقسیم کرتے اور فوٹو سیشن کے بعد واپس چلے جاتے ہیں پھر پلٹ کر ان متاثرین کا حال کوئی نہیں پوچھتا،اب جبکہ بین الاقوامی اداروں نے موسمی تغیرات کے خطرناک نتائج سے آگاہ کردیا ہے اور فنی و مالی مدد کی پیش کش بھی کی ہے، حکومت کو گلیشیرز کے خطرے کی زد میں رہنے والے تمام لوگوں کی حفاظت کےلئے ہنگامی بنیادوں پرپیشگی اقدامات کرنے چاہئیں۔