قمری تقویم کوسمجھنے کی ضرورت

قمری ہجری تقویم کے بارے میں چند بنیادی معلومات اور اِس مناسبت سے خصوصی امور لائق توجہ ہیں‘ جن سے بالخصوص نئی نسل کو آگاہ کرنا اِس لئے ضروری ہے کیونکہ یہ پس منظر اور تفصیلات تعلیم و تربیت سے متعلق مدارج (معمولات) کا حصہ نہیں اور ہمارے ہاں نصاب تعلیم مرتب کرنے والوں کے ہاں اِسلام کو ”دینیات“ کے نام سے ایک کتاب میں سمو کر پیش کرنے کو کافی سمجھا جاتا ہے جبکہ اسلام عبادات کا مجموعہ نہیں بلکہ یہ ایک مکمل طرز زندگی ہے جس میں معمولات سے معاملات تک رہن سہن کے طور طریقوں اور سلیقے سے لیکر عمومی و خصوصی بول چال کے اصول تاکید سے تلقین کئے گئے ہیں جن کی عملی مثالیں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے باادب ساتھیوں رضوان اللہ اجمعین کی عملی زندگیوں کے مطالعے سے باآسانی تصور کی جا سکتی ہیں۔ اسلامی ماہ و سال کا ظہور زمین کی گردش سے ہوتا ہے جس کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے چاند پر نظر رکھی جاتی ہے اور چاند کے کم ہونے اور بڑھنے سے مہینے کا آغاز و اختتام کی منزلیں اخذ کی جاتی ہیں‘ یہ تکنیکی عمل اِس قدر آسان ہے کہ جس کے لئے ماہر ریاضی داں ہونا ضروری نہیں لیکن علم کی طلب اور ذوق و شوق کا ہونا شرط ہے۔ ماہ و سال کے اِس شمار (اسلامی تقویم) کا آغاز پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اپنے ساتھیوں (صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین) کے ہمراہ مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ ہجرت (نقل مکانی) سے ہوا یعنی جس سال مسلمانوں نے مکہ سے ہجرت کی اُسے محرم الحرام اور جس تاریخ کو یہ ہجرت ہوئی اُسے یکم (سال کا پہلا دن) قرار دیا گیا چونکہ ہجری سال قمری تقویم ہے اِس لئے مہینوں (محرم‘ صفر‘ ربیع الاول‘ ربیع الثانی‘ جمادی الاول‘ جمادی الثانی‘ رجب‘ شعبان‘ رمضان‘ شوال‘ ذی القعد‘ ذی الحج) کا بالترتیب آغاز چاند دیکھنے سے ہوتا ہے اور ہر اسلامی ملک میں مرکزی و علاقائی رویت ہلال کمیٹیاں بنائی جاتی ہیں۔

 غیراسلامی اور کئی اسلامی ممالک (براعظم امریکہ‘ آسٹریلیا‘ افریقہ یورپی ممالک اور افغانستان وغیرہ) میں مقامی رویت ہلال کی بجائے سعودی عرب کی ہجری تاریخوں کے مطابق مہینوں کا آغاز و اختتام اور اِسی مناسبت سے اسلامی تہوار منائے جاتے ہیں۔ ایک اسلامی سال کا دورانیہ 354.367056 دن اور ایک مہینے کا دورانیہ 29.530588 دن رہتا ہے۔ پہلے ہجری سال کی یکم محرم الحرام بمطابق 16 جولائی 622 ہوئی اور اسلامی قمری سال عیسوی سال کے مقابلے عموماً ’دس‘ یا کبھی کبھار ’گیارہ‘ دنوں کے فرق سے شروع ہوتا ہے یعنی ہر سال ہجری اور عیسوی سال کے درمیان وقفہ کم ہو رہا ہے اور ہر 33 سال بعد اسلامی ہجری سال اپنے آپ کو اُنہی ایام میں دُہراتا ہے‘ جن میں یہ پہلے ظہور پذیر ہوا تھا۔ قمری ہجری سے عیسوی تاریخوں کو اخذ کرنے کے لئے ہجری سال کو 0.970224 سے ضرب اور اِس میں 621.5774 جمع کرنے سے ملنے والے حاصل میں اعشاریہ سے پہلے والا حصہ سال کو ظاہر کرتا ہے جبکہ اعشاریہ کے بعد والے حصے کو اگر 365 سے ضرب دی جائے تو دنوں کی تعداد معلوم ہو جائے کی کہ کتنے دنوں بعد عیسوی سال میں یکم محرم الحرام وقوع پذیر ہونی ہے۔

 یہ اعدادوشمار 1 یا 2 دنوں کے فرق پر مبنی ہو سکتے ہیں کیونکہ دنیا کے مختلف حصوںمیں چاند نظر آنے کا مرکزی اعلان ایک دوسرے سے فرق رہتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ ایک ہی وقت میں مختلف اسلامی ممالک میں مختلف اسلامی تاریخیں رائج ہوتی ہیں۔نیا ہجری سال (1442ھ) کا یکم محرم الحرام درحقیقت تجدید عہد کا موقع اور دعوت ہے کہ اِس میں سرانجام دی جانے والی عبادات و اعمال کے فلسفے پر بھی غور کیا جائے اور جہاں کہیں کمی بیشی ہے اُس کی اِصلاح کر لی جائے کیونکہ ”صاحب ایمان کی پہچان یہ ہے کہ اُس کا حال ماضی سے بہتر ہوتا ہے۔“ اِس حدیث مبارکہ کے مفہوم کو ذہن میں رکھتے ہوئے بالخصوص سیّد الشہدا¿ کے قیام و قربانی کا مقصد دیکھا جائے تو اُس کے بنیادی 2 جز ہیں۔ نیکیوں کا حکم (اَمر بالمعروف) اور بُرائیوں سے اجتناب یعنی اپنی اور دوسروں کے اصلاح کی کوشش (نہی عن المنکر) کرتے رہنا (اِن شاءاللہ عزو جل)۔ محرم کیا ہے؟:محرم یعنی ”ترک گناہ۔“ تصور کیجئے کہ جس دین (اسلام) میں نئے سال کا آغاز ’عزت و حرمت‘ سے ہو‘ اُس کے ماننے والوں پر کس قدر لازم ہو جاتا ہوگا کہ وہ سارا سال خود کو برائیوں کے حصار میں آزاد رکھیں۔خاص کر محرم الحرام میں غیرمعمولی اتحاد و اتفاق‘ بھائی چارے اُور برداشت کا مظاہرے کیا جائے تو سارا سال سکون و عافیت سے گزر سکتا ہے۔ اگر محرم الحرام یعنی اسلام سال کے پہلے مہینے کو سمجھا جائے تو اس سے سارا سال امن اور خوشحالی کے ساتھ گزرنے اور ساتھ ساتھ دنیاوی اور آخروی کامیابیوں کو سمیٹنے کا راستہ ہموار ہو جاتا ہے سال کا آغاز ہی اگر محرمات کو چھوڑنے سے کیا جائے تو اس سے بہتر عمل اور کیا ہو سکتاہے۔