تحریک اِنصاف کے ’طرزِحکمرانی‘ کا بنیادی نکتہ اگر ’عوامی مفاد‘ ہے تو اِس سلسلے میں ’اِحساس پروگرام‘ کے تسلسل میں خیبرپختونخوا کا ’صحت انصاف کارڈ‘ تازہ ترین اضافہ ہے جس کے تحت خیبرپختونخوا ایسا پہلا صوبہ کہلائے گا‘ جہاں ہر خاندان کو علاج معالجے کےلئے ’سالانہ 10 لاکھ روپے‘ کا بیمہ حاصل ہوگا اور یہی وہ بنیادی ضرورت تھی جو بیشتر خاندانوں کی غربت و پریشانی میں اضافے کا باعث ہے‘ حکمت عملی کے مطابق اگر کسی شخص نے دل کا آپریشن یا گردوں کا ٹرانسپلانٹ کرانا ہے تو وہ صحت انصاف کارڈ کے ذریعے کروا سکے گا۔ اِس سلسلے میں بیس اگست کی شام وزیرِ اعظم عمران خان نے اعلان کیا کہ ”خیبرپختونخوا کے ہر خاندان کو صحت انصاف کارڈ کی فراہمی کے اٹھارہ ارب روپے کے پروگرام کا اجرا ءکر دیا گیا ہے جس کے تحت ہر خاندان کو دس لاکھ روپے تک علاج کی مفت سہولت میسر ہو گی۔“ اپنی نوعیت کا یہ پہلا اور انوکھا صوبائی منصوبہ مرحلہ وار حکمت عملی کا حصہ ہے جس کے پہلے مرحلے میں 40 فیصد انتہائی ضرورت مند افراد کو یہ سہولت ترجیحی بنیادوں پر فراہم کی جائے گی‘ بنیادی سوال یہ ہے کہ 10 لاکھ روپے کیسے خرچ ہوں گے؟ مجموعی طور پر صوبے کے 60لاکھ خاندان اِس سہولت سے مستفید ہوں گے۔ اس منصوبے کے تحت 2 لاکھ روپے بنیادی صحت اور ایمرجنسی جیسے واقعات کےلئے مختص ہوں گے۔
اس میں فوری نوعیت کے علاج جیسی کوئی ایمر جنسی ہو گئی ہے اور اس کےلئے ہسپتال میں داخل ہونا ہوتا ہے‘ زچگی کےلئے ڈاکٹر کے پاس جانا اور علاج کرانا‘ جنرل سرجری جیسے پتے یا ہرنیا کا آپریشن وغیرہ اور اس کے علاوہ ذیابیطس‘ بلڈ پریشر اور دل کے عارضے کی ادویات پر خرچ کئے جا سکیں گے‘اسکے علاوہ 4 لاکھ روپے علاج کیلئے بطور پیشگی مختص کئے جائیں گے‘ جس سے گردوں اور دل کی بیماریوں کے فوری علاج‘ اینجو پلاسٹی اور اوپن ہارٹ سرجری‘ ذیابیطس‘ مصنوعی اعضا ءکی پیوندکاری اور نیورو سرجری وغیرہ جیسی بیماریوں کے علاج معالجے کے اخراجات ادا کئے جا سکیں گے‘ اس کے علاوہ 4لاکھ روپے بڑے آپریشنز جیسے اعضا ءکے ٹرانسپلانٹ اور سرطان (کینسر) جیسی بیماریوں کے علاج کیلئے مختص ہوں گے۔ یہ علاج مجاز سرکاری یا نجی علاج گاہوں سے کروایا جا سکے گا اور اِس مقصد کیلئے ملک بھر میں مجاز ہسپتالوں کی نشاندہی بھی کر دی گئی ہے‘ جس میں صوبائی حکومت سے زیادہ بیمہ کمپنی (سٹیٹ لائف انشورنس) کی ترجیحات کو اہمیت دی گئی ہے۔صوبائی صحت بیمہ کے پہلے مرحلے کیلئے صوبائی حکومت ’سٹیٹ لائف انشورنس‘ نامی ادارے کو ”اٹھارہ ارب روپے“ فراہم کرے گی اور اس منصوبے پر اکتوبر (دوہزاربیس) سے مرحلہ وار ہوگا۔ پہلے مرحلے میں اکتوبر کے دوران سوات ¾چترال اور ملاکنڈ جبکہ دوسرے مرحلے میں اگلے تین ماہ میں دیگر اضلاع کے خاندانوں کو ’صحت انصاف کارڈز‘ کا اجراءکیا جائے گا‘ اگر صوبائی حکومت کے فیصلہ ساز نئی قسم کا کارڈ شائع اور تقسیم کرنے پر اخراجات کرنے کی بجائے نادرا کے جاری کردہ کمپیوٹرائزڈ قومی شناختی کارڈ ہی کو صوبائی صحت اِنصاف کارڈ میں تبدیل کر دیں۔
تو اِس سے بہت سارا وقت اور پیسہ بچ جائے گا‘ دوسری اہم ضرورت یہ ہے کہ نجی ہسپتالوں کو اِس حکمت عملی میں شروع دن سے شامل نہ کیا جائے ¾ اگر حکومت کا مقصد ’علاج معالجے کی مارکیٹنگ اور کمرشلائزیشن کرنے کے عمل کی حوصلہ شکنی کرنا ہے‘ جو کہ اِسے کرنا چاہئے تو نجی اداروں کے مالی مفادات سے زیادہ غریب مریضوں کے علاج معالجے پر توجہ دے اور صوبائی صحت انصاف کارڈ کے تحت صرف سرکاری علاج گاہوں ہی کا انتخاب کیا جائے‘ ‘علاج معالجے کو سیاحت اور کاروبار بنانے والوں کی حوصلہ شکنی وقت کی ضرورت ہے‘ ‘ یادش بخیر‘ زیادہ پرانی بات نہیں جب وفاقی حکومت کے صحت انصاف کارڈ سے علاج معالجے کا ’تجربہ ناکام رہا‘ اورکئی نجی ہسپتالوں نے ’صحت انصاف کارڈز‘ رکھنے والوں کو علاج معالجے کی سہولیات فراہم کرنے سے انکار کر دیا کیونکہ ایک تو حکومت کی جانب سے ادائیگیوں میں تاخیر ہوتی تھی اور دوسرا نجی ہسپتال نہیں چاہتے کہ اُن کے ہاں فراہم کی جانے والی علاج معالجے کی سہولیات کی قیمت حکومت کی جانب سے مقرر ہو۔ جو بھاری رقم صوبائی صحت انصاف کارڈ کیلئے مختص کی گئی ہے اگر اُس سے موجودہ سرکاری ہسپتالوں میں بنیادی ضروریات کی فراہمی اور نئے تدریسی ہسپتال تعمیر کئے جائیں‘ جن کے ساتھ میڈیکل کالجز بھی ہوں تو اِس سے ایک وقت میں کئی فائدے حاصل کئے جاسکتے ہیں ۔ تحریک انصاف کی وفاقی اور صوبائی قیادت کے جوش و جذبے کو سلام لیکن زمینی حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے وقت ہے کہ حسب حال و ضرورت مشکل اور عملی طور پر ”مفید تر“ اقدامات کئے جائیں۔ ”شاید کہ اُتر جائے تیرے دل میں میری بات!“