ایک معنی خیز خبر آئی ہے خبر یہ ہے کہ اپو زیشن نئی آئینی تر میم کے ذریعے نیب کے قوانین کو بدلنا چاہتی ہے ¾1990ءکی دہا ئی میں احتساب کے لئے نئے ادارے کی داغ بیل ڈالی گئی اس حوالے سے سیف الرحمن کو شہرت حا صل ہوئی 1999ءکے بعد نیب کے نام سے نیا ادارہ بنا یا گیا مقصد احتساب تھا اور احتساب کے ذریعے بد عنوانی کا خاتمہ تھا بد عنوانی کے لئے انگریزی کے لفظ کرپشن کو عام کیا گیا ہر طرف سے کرپشن کا نام سننے میں آیا کس نے کرپشن کی اور کتنی کرپشن کی اس گفتگو میں کرپشن کرنے والا بہت مقبول ہو جا تا ہے بات کڑوی ہے مگر حقیقت میں اس کو بے پنا ہ مقبولیت ملتی ہے لو گ اس کی دولت ، عزت اور ناموری پر رشک کر تے ہیں کیونکہ اس طرح کرپشن عام ہو جاتی ہے کرپشن کی حو صلہ شکنی نہیں ہو تی ہمارے گروپ میں سکو ل کے زمانے کے 20 دوست ہیں ان میں سے ہر ایک نے سکول کے زمانے کا پاکستان دیکھا تھا اور اب ریٹائرمنٹ کے بعد کا پا کستان دیکھ رہے ہیں تب اور اب میں کتنا فرق ہے ؟ دو مثا لوں سے یہ فرق نما یا ں ہو کر سامنے آجا تا ہے ہم دسویں میں پڑھتے تھے تو امتحا ن میں نقل کا تصور نہیں تھا اگر کوئی نقل میں پکڑا جا تا تو 3سالوں کے لئے اس پر پابندی لگتی تھی لو گ حیران ہوتے تھے کہ طا لب علم ہوتے ہوئے نقل کرنے کی کو شش کی وہ کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہتا تھا ہمارے کا لج کے زمانے میں شہر وں کے اندر نقل کی وباءآئی پھر یہ وباءاس قدر پھیل گئی کہ 50سالوں میں سکول ، کالج اور یو نیورسٹی میں اگر کسی نے نقل کے بغیر امتحان دیا تو لو گوں نے حیرت کا اظہار کیا نقل کے بغیر کس طرح امتحا ن دیدیتا ہے اساتذہ کرام کے ایک طبقے سے لیکر طلباءکی یو نین تک سب نے نقل کو بنیا د ی انسا نی حقوق میں شامل کیا کھلم کھلا یہ بات کہی جا نے لگی کہ آج کل نقل کے بغیر کوئی اچھے نمبر نہیں لے سکتا تب نقل کو برائی کا درجہ دیا جاتا تھا اب نقل کو چا بکدستی ، ہو شیا ری اور چا لا کی کا نام دیا جا تا ہے۔
ہم دسویں میں پڑھتے تھے تو ملازمت کے لئے سفارش یا رشوت کا کوئی دستور نہیں تھا ہمارے گاﺅں اور سکول کے جتنے واقف لوگ ملا زمت پر جاتے تھے اپنی لیا قت اور قابلیت کے بل بو تے پر جا تے تھے 50سال گزر نے کے بعد ایسا زمانہ آیا کہ رشوت اور سفارش کے بغیر چوکیدار اور ڈرائیورکی نو کری نہیں ملتی ایم پی اے اور ایم این اے کو ملا زمتوں میں کوٹہ دیا جا تا ہے اور علی الاعلا ن سفارش کے ساتھ چائے پا نی کا مطالبہ ہو تا ہے ہمارے استاد کے سامنے کسی نے ذکر کیا کہ میرے مخا لف شخص نے آفیسر کوجا پا نی ریڈیو کا تحفہ دیکر 20کنال زمین کا مقدمہ جیت کر مجھے محروم کر دیا اس پر ہمارے استاد نے کا نوں کو ہاتھ لگا کر تو بہ کی کہ آفیسر ہوتے ہوئے رشوت لیتا ہے ¾ یہ وا قعہ بہت عجیب اور انہو نی لگتا تھا پھر ہم نے ایسا دور بھی دیکھا کہ سیا سی قائدین نے ایک آفیسر کے خلاف با قاعدہ جلو س نکا ل کر اس کے دفتر کو تا لہ لگا دیا اور حکومت سے مطا لبہ کیا اس کو فوراً یہاں سے تبدیل کیا جائے اور حکومت نے اس کو تبدیل کر کے کسی دور دراز سٹیشن پر بھیج دیا آفیسر کا قصور یہ تھا کہ کمیشن نہیں لیتا تھا اور ٹھیکیدار وں سے سو فیصد کام لیتا تھا ہم سکول میںتھے تو قتل کے مقدمے میں گرفتار ملزم کو پھا نسی ہوتی تھی۔
اب زندگی کے 40سال گزار نے کے بعد یہ حا لت ہوئی کہ قاتل کو عدالت سے باعزت بری کرنا سب سے آسان کام ٹھہرا قتل کے ایک مقدمے میں خون بہا دے کر قاتل کو چھڑا نے کے لئے جرگہ ہورہا تھا مقتول کی بیوہ نے خون بہا لینے سے انکار کیا تو قاتل کے باپ نے بھرے جر گے میں اعلان کیا ” میرا بیٹا اس خون بہا کی نصف سے بھی کم رقم خرچ کر کے قید سے رہا ہو جا ئے گا مگر بیوہ اپنے بچوں کو لیکر گاﺅں میںنہیں رہ سکے گی“ چنا نچہ ایسا ہی ہوا ملزم جیل سے رہا ہوا بیوہ دو بچوں کے ساتھ اغوا ہو گئی ، یہ گئے وقتوں کا نو حہ نہیں یہ دور حاضر میں اقتدارکی پا مالی کا ما تم ہے سب سے زیادہ دکھ اس بات کا ہو تا ہے کہ سفا رش ، رشوت اور دھونس دھا ندلی کے نئے رواج نے معاشرے کے اندر بے حسی پیدا کر دی بد عنوانی کو برائی سمجھنے کا دستور نہیں رہا بلکہ لو گ بد عنوا نی کو بہادری ، دلیری اور بڑائی کی علا مت قرار دیتے ہیں اس تنزل کی وجہ کیا ہے ؟ کہتے ہیں اسلا می تعلیمات سے دوری اس کی وجہ ہے گھر میں غلط تربیت اس کی وجہ ہے دونوں وجو ہات درست ہونگی مگر فوری وجو ہات اور ہیں فوری اثر کرنے والی ایک وجہ یہ ہے کہ بد عنو انی کا پر چار ہو رہا ہے دوسری فوری وجہ یہ ہے کہ قانون کو موم کی ناک بنایا گیا ہے تب اور اب میں یہ فرق ہے ۔