ماڈل پناہ گاہیں

وفاقی حکومت نے دارالحکومت اسلام آبادمیں5 ماڈل پناہ گاہیں بنانے کا فیصلہ کیا ہے اسلام آباد کی ماڈل پناہ گاہوں کی طرز پر دوسرے صوبوں کی پناہ گاہوں میں بھی مخیر حضرات کے اشتراک سے معیاری سہولیات کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے گا ماڈل پناہ گاہوں کا دائرہ بتدریج دوسرے صوبوں تک بڑھایا جائے گا ¾ وزیراعظم عمران خان نے غریب‘نادار اور مزدور طبقے کو پناہ گاہوں میں باعزت طریقے سے چھت اور بنیادی سہولیات کی فراہمی کے عزم کا اعادہ کیا ہے۔کہا جاتا ہے کہ پیرس دنیا کے شہروں کی دلہن ہے جنوبی ایشیاءمیں اسلام آبادکوخطے کے دیگر شہروں کی دلہن کہاجائے تو مبالغہ نہ ہوگا یہ حکمرانوں کا شہر ہے، اعلیٰ بیوروکریسی کا شہر ہے‘سفارت کاروں کا شہر ہے ےہاںپارلیمنٹ ہاﺅس ہے‘ صدراور وزیراعظم کے دفاتر اور رہائش گاہیں ہیں‘سینٹ اور قومی اسمبلی کے اراکین ‘وزرائ‘ مشیروں اور معاونین کے دفاتر اور بنگلے ہیں‘ ملک کے تمام بڑے صنعت کاروں، سرمایہ داروں، جاگیرداروں، ججوں، جرنیلوں‘ بڑے بڑے صحافیوں اور ٹھیکیداروں کی قیام گاہیں بھی وفاقی دارالحکومت میں موجود ہیں۔یہاں کے 99فیصد باسی باہر سے آئے ہیں جب عید کی چھٹیاں ہوتی ہیں تو پورا اسلام آباد خالی ہوجاتا ہے‘یہاں کی سڑکوں پر رولز رائس‘بی ایم ڈبلیو‘ مرسیڈیز‘شوارلٹ‘بینز سمیت دنیا کی سب سے قیمتیں گاڑیاں دوڑتی نظر آتی ہیں اسلام آباد میں دن کے اوقات بھی دلکش ہیں اور راتیں بھی رنگیں ہیںیہاں غریب نام کی مخلوق چراغ لے کر ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتی۔ پھر ان پرتعیش اور ماڈل پناہ گاہوں کے قیام کا کیا مقصد۔کہیں ایسا تو نہیں کہ جن لوگوں پر قومی وسائل لوٹنے کے الزامات ہیں اور جن کےخلاف کرپشن کے مقدمات میں تیزی لائی جارہی ہے۔

 ان سے لوٹی گئی دولت‘ جائیدادیں‘محلات‘ بنگلے‘ قیمتی گاڑیاں اور جاگیریں بحق سرکار ضبط کرکے انہیں ماڈل پناہ گاہوں میں شفٹ کرنے کاپروگرام ہو اسلام آباد میںکسی سبزہ زار یا فٹ پاتھ پر رات گزارنے والا آج تک کوئی نظر نہیں آیا۔ ہاں البتہ پشاور، راولپنڈی، لاہور، کوئٹہ، ملتان، فیصل آباد، حیدر آباد، سکھر اور کراچی میں لاکھوں شہری چھت کی سہولت سے محروم ہیں وہ دن کو محنت مزدوری کرتے اور راتوں کو فٹ پاتھ یا کسی پارک میں جوتوں کو تکیہ بناکر راتیں گزارتے ہیں۔شاعر نے شاید ایسے ہی لوگوں کے بارے میں کہا تھا کہ ” نہ لٹتا دن کو ، تو کب رات کو یوں بے خبر سوتا،رہا کھٹکا نہ چوری کا ، دعا دیتا ہوں رہزن کو‘۔بات ماڈل پناہ گاہوں سے شروع ہوئی تھی۔ اسلام آباد میں جدید سہولیات سے آراستہ ماڈل پناہ گاہیں قائم کرنے کا ایک مقصد یہ بھی ہوسکتا ہے کہ یہاں کی پناہ گاہیں بھی وفاقی دارالحکومت کے شایان شان ہونی چاہئیںکیونکہ اسلام آباد کے فٹ پاتھ نشین بھی دیگر شہروں کے غرباءسے کچھ مختلف تو ہونگے ہیِ اس لئے ان کی سرکاری رہائش گاہ بھی بنگلہ نما ہونی چاہئے۔بہرحال یہ بات یک گونہ تسلی کا باعث ہے کہ بالاخرکسی حکومت کو غریبوں کا خیال تو آگیا،وقتی طور پر حکومت نے ان کے لئے مفت قیام کے لئے جدید پناہ گاہیں تعمیر کی ہیں دوسرے مرحلے پر ان کے لئے سستے مکانات تعمیر کئے جارہے ہیں ۔اگر چہ اس بات کو خارج از امکان قرار نہیں دیا جاسکتا کہ ان سستے مکانات پر بھی بااثر اور متمول لوگ خود کو غریب، بے کس، بے سہارا، یتیم اور نادار ظاہر کرکے قبضہ کرلیں گے۔ تاہم یہ بات خارج ازامکان ہے کہ قبضہ گروپ ماڈل پناہ گاہوں میں ڈیرے ڈال دے، یہ صرف غریبوں، ناداروں اور مستحق لوگوں کے لئے بنے ہیں اور یہ اثاثے ان سے دنیا کی کوئی طاقت نہیں چھین سکتی۔