لمحہ لمحہ زندگی

 دسمبر 2019ءکے آغاز سے کورونا وبا کی پراسراریت میں اِضافہ ہو رہا ہے۔ ہر دن کوئی نہ کوئی خبر اور متاثرین کے اعدادوشمار اِس بات کا بین ثبوت ہیں کہ علاج معالجے کی دریافت کے ساتھ‘ کورونا کو سمجھنے اور اِس کے پھیلنے کے عمل کو روکنے کے لئے کون کون سے حفظ ماتقدم اقدامات کئے جائیں۔ دنیا کے کئی ممالک سے جمع کئے گئے اعدادوشمار کی روشنی میں اقوام متحدہ کے ذیلی ’عالمی ادارہ¿ صحت نے صدر دفتر سے تنبیہ جاری کی ہے کہ 12 سال یا اِس سے زائد عمر کے بچوں کو بھی بالغوں ہی کی طرح کورونا وبا سے محفوظ رہنے یا اِس کے جرثومے کو پھیلنے سے روکنے کے لئے اپنا چہرہ ڈھانپ کر رکھنا چاہئے۔ اِس سے قبل رواں ماہ کے آغاز پر شکاگو کی ایک علاج گاہ این اِینڈ رابرٹ ایچ لوری چلڈرنز ہاسٹل نے اپنی تحقیق میں یہ کہتے ہوئے تفکرات کا شکار دنیا کو مزید پریشان کر دیا تھا کہ ”کورونا وائرس اِس بات کی صلاحیت رکھتا ہے کہ یہ کم عمر بچوں کے نظام تنفس کی بالائی نالی میں جمع ہو اور اگرچہ کمسن بچوں کی قوت مدافعت زیادہ ہوتی ہے لیکن اُن کی ناک میں پائے جانے والے کورونا وائرس کے جرثوموں کی تعداد بالغ افراد سے کئی گنا زیادہ پائی گئی‘ اِس لئے پانچ سال سے کم عمر بچے اگر اپنا چہرہ ماسک کے ذریعے ڈھانپ کر نہیں رکھیں گے تو وہ کورونا وائرس پھیلانے کا باعث بنیں گے۔ طبی جریدے ”جاما پیڈیاٹرکس“ میں شائع تحقیق کے خلاصے میں اس امکان کا ذکر کرتے ہوئے دنیا کو خبردار کیا گیا ہے کہ ”کم سن بچے بھی دیگر افراد کی طرح وائرس کو صحت مند افراد میں منتقل کرسکتے ہیں۔

“ یہ امریکی تحقیق زیادہ جامع اور بڑے پیمانے پر نہیں کی گئی کیونکہ تعلیمی ادارے بند ہونے کی وجہ سے محققین کی بچوں تک رسائی نہیں تھی تاہم دریافت اپنی جگہ حیران کن ہے کہ ”کووڈ 19“ کہلانے والی بیماری سے ہر عمر کے افراد متاثر ہو سکتے ہیں لیکن کمسن بچے بھی بڑوں کی طرح کورونا پھیلانے میں یکساں کردار ادا کر رہے ہیں‘ جس کی وجہ سے یہ وبا کئی ممالک میں تیزی سے پھیلی ہے۔ ابتدائی تصور یہ تھاکہ کم سن بچے کورونا سے متاثر نہیں ہوتے اور محفوظ رہتے ہیں لیکن اب معلوم ہوا ہے کہ کورونا وائرس بچوں کی قوت مدافعت کے باعث اُنہیں نقصان تو نہیں پہنچا رہا ہوتا لیکن وہ بچوں کی ناک اور سانس لینے کی نالی کے بالائی حصے میں جمع رہتا ہے اور یہیں سے گردوپیش میں صحت مند افراد کو متاثر کرتا رہتا ہے۔ یہ دونوں نتائج بہت اہمیت کے حامل ہیں کیونکہ دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی تعلیمی سرگرمیوں کا حسب معمول آغاز کرنے کے لئے حکومت پر بالترتیب نجی تعلیمی اداروں اور والدین کا دباو¿ بڑھ رہا ہے اور اِس سلسلے میں وفاقی وزیر تعلیم شفقت محمود نے آئندہ ماہ کے پہلے ہفتے تعلیم کی چاروں متعلقہ صوبائی وزارتوں کے نمائندوں کو مدعو کر رکھا ہے تاکہ مل بیٹھ کر 15 ستمبر سے تعلیمی ادارے کھولنے سے متعلق مشاورت کی جا سکے۔ کیا ایک ایسی صورتحال میں بچوں اور بڑوں کی زندگیوں کو خطرے میں ڈالنا دانشمندی ہوگا جبکہ ملکی و غیرملکی ماہرین اور طب کے شعبے سے متعلق عالمی ادارے و محقیقن ’کورونا وبا‘ کے پھیلنے کی صلاحیت کے نت نئے پہلوو¿ں سے پردہ اُٹھا رہے ہیں یقینا یہ خبرداری اِس لئے ہے کہ جب تک کورونا وبا کا مستند علاج دریافت نہیں ہو جاتا اُس وقت تک تعلیمی سرگرمیوں کو معطل رکھا جائے اور درس و تدریس کے متبادل ذرائع (آن لائن اور آف لائن) کو اُن طبقات تک پھیلایا جائے۔

 جو ٹیکنالوجی سے استفادے کے بارے بنیادی جانکاری بھی نہیں رکھتے یا سمارٹ فون اور انٹرنیٹ جیسی سہولیات خریدنے کی مالی سکت نہیں رکھتے۔ ایسے طبقات سے تعلق رکھنے والے طالب علموں کے لئے بینکوں کے ذریعے آسان شرائط اور بلاسود قرضوں کی فراہمی کا بندوبست ہونا چاہئے کیونکہ درس و تدریس کا عمل جو پہلے ہی طبقات اور مختلف قسم کے نصابوں میں تقسیم تھا‘ کورونا وبا کے باعث کم آمدنی رکھنے والوں کی پہنچ سے دور ہو چکا ہے جبکہ نجی ادارے ’آن لائن وسائل‘ کا بھرپور استعمال کر رہے ہیں اور ہر دن پہلے سے زیادہ بہتر و منظم انداز میں ’آن لائن تدریس‘ کا عمل جاری رکھے ہوئے ہیں کیونکہ تعلیم میں وقت اور مالی وسائل کی سرمایہ کاری کرنے والے نجی اداروں نے ’تدریس کے متبادل ذرائع‘ کو نہ صرف زیادہ سنجیدگی سے لیا بلکہ شروع دن (پانچ ماہ سے) آن لائن کلاسز جاری رکھے ہوئے ہیں اور نجی ٹیویشن سنٹرز نے ایسے سافٹ وئرز تک بنا لئے ہیں‘ جن میں آڈیو‘ ویڈیو اور ٹیکسٹ کے ذریعے طالب علم اور کتاب کے تعلق و رشتے کو ٹوٹنے نہیں دیا گیا۔پاکستان ابھی لاک ڈاو¿ن اور سمارٹ لاک ڈاو¿ن کے مخمصے سے نہیں نکلا تھا کہ مون سون بارشوں نے ملک کے چھوٹے بڑے شہروں میں جل تھل ایک کر دیا ہے اور ایسے ہنگامی حالات کہ جب ندی نالے اُبل رہے ہوں۔ شہری گٹر کے گندے پانی میں تیراکی سیکھ رہے ہوں‘ سڑکیں‘ گلیاں اور کوچے تالابوں‘ نہروں اور دریاو¿ں کے مناظر پیش کر رہے ہوں تو عوام کو چہرہ ڈھانپ کر رکھنے اور کورونا وبا سے احتیاط کا مشورہ کون دے گا‘ کون سنے گا اور کون عمل کرے گا؟ عالمگیر کورونا وبا سے دنیا کا ہر ملک کم یا زیادہ متاثر ہے اور یہ خطرہ نہ تو ٹلا ہے اور نہ ہی حسب توقع موسم گرما کی شدت کے ساتھ کم ہوا ہے۔ دانشمندی اِسی میں ہے کہ لمحہ لمحہ زندگی کو آگے بڑھایا جائے اور دوسروں کے علم‘ تجربے و تحقیق سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے عالمی اِداروں کی مستند تحقیق و تشریح کومدنظر رکھا جائے کیونکہ ایک ایسے مرحلے پر جبکہ قوی اُمید پیدا ہو چکی ہے کہ ’کورونا وبا‘ اب زیادہ عرصہ لاعلاج نہیں رہے گی تو اِس ممکنہ و معلوم خطرے کو نظرانداز کرنا خودکشی کے مترادف عمل ہوگا۔