افغان امن:نیا موڑ

 پاکستان افغان مہاجرین کی میزبانی اور افغانستان کے ساتھ سرحدی آمدورفت کو منظم کرنا چاہتا ہے لیکن یہ دونوں اہداف بنا افغان امن حاصل نہیں ہو سکیں گے اور نہ ہی کوئی ایسا جادو موجود ہے جس کے ذریعے دل‘ نیت اور اعمال کی اصلاح ہو سکے۔ بہرحال سیدھی سادی بات یہ ہے کہ افغانستان میں قیام امن کا تعلق پاکستان کی داخلی صورتحال سے بھی ہے اور یہی وجہ ہے کہ پاکستان نے نہ صرف افغانستان بلکہ اپنے دیگر ہمسایہ ممالک کی داخلی سلامتی کے لئے خطرات کو اپنے دفاع اور ہمیشہ اپنے ہاں امن کی صورتحال سے مشروط دیکھا اور یہی خارجہ پالیسی کا وہ درست پہلو ہے کہ کسی ملک میں مداخلت نہ کرتے ہوئے وہاں کے امن کے لئے خطرہ بننے والوں کو بذریعہ مذاکرات اپنے اپنے تحفظات دور کرنے کے لئے رہنما کردار ادا کیا جائے۔ افغانستان کے داخلی حالات معمول پر لانے کے لئے پاکستان اپنے اثرورسوخ کو آخری حد تک استعمال کر رہا ہے اور ماضی میں اِس قدر پرزور و پرخلوص کوششیں کبھی بھی دیکھنے میں نہیں آئیں۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کے ساتھ سفارتی سطح پر افغان حکام کی ملاقاتوں میں بطور خاص اس نکتے پر زور دیا جاتا رہا ہے کہ پاکستان کے افغان امن عمل میں اثرورسوخ سے فائدہ اُٹھایا جائے اور پاکستان نے ہمیشہ کی طرح اِس مرتبہ بھی اپنے اثر ورسوخ کو مثبت انداز میں استعمال کرنے کی یقین دہانی کرائی ہے‘ جس کی تعریف عالمی سطح پر ہوئی ہے اور دنیا افغانستان کے مسئلے کو سمجھنے اور اِس کے حل کے لئے پاکستان کے نکتہ¿ نظر سے متفق ہے۔

 یہی وجہ ہے کہ امریکہ ہو یا افغان فریق بشمول طالبان جنگجو‘ پاکستان کی کوششوں اور کردار کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہوئے سمجھتے ہیں کہ افغان امن کی نتیجہ خیزی اگر ممکن ہے تو یہ پاکستان کی ہمراہی بنا ممکن نہیں۔ افغانستان میں قیام امن کے نئے دور میں نیا موڑ (تازہ ترین پیشرفت) افغان طالبان کے وفد کی پاکستان آمد ہے جس کی معنویت اور معنی خیزی نتیجے کے قریب مذاکراتی عمل میں پاکستان کے کردار کی تعریف و اعتراف کا اظہار ہے اور اِسے علامتی ہی سمجھنا چاہئے۔ قطر میں افغان طالبان کے سیاسی دفتر سے آئے وفد نے پاکستانی حکام سے ممکنہ بین الافغان مذاکرات پر تبادلہ¿ خیال کیا اور وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اُن کی کوشش ہے کہ بین الافغان مذاکرات میں درپیش پیچیدگیاں کم ہوں اور یہ مذاکرات بھی جلد ہی شروع ہونے چاہئیں۔ پاکستان کا مو¿قف شروع دن واضح ہے جس میں کوشش‘ نیت اور خواہش یہ ہے کہ افغان فریقین ایک دوسرے کے کردار (ماضی) کے حوالے سے یاداشتوں اور اپنے اپنے تحفظات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اُس مذاکراتی عمل کو جلد از جلد شروع کریں‘ جس میں ملک کا آئین‘ شراکت اقتدار کے اصول اور طرزحکمرانی جیسے بنیادی امور طے ہوں گے۔ عجب ہے کہ افغانستان کے کٹھ پتلی حکمران آپس میں مل بیٹھ کر تو شراکت اقتدار کر لیتے ہیں لیکن طالبان کی صورت وہ طاقت جو ساٹھ فیصد سے زائد افغان حصوں پر کنٹرول رکھتی ہے‘ اُس سے بات چیت کرنے میں حیلے بہانوں سے کام لیا جاتا ہے۔ پاکستان کے وزیرخارجہ نے اپنے حالیہ دورے کے دوران چین حکام کے ساتھ افغان امن عمل پر بات چیت کرنے اور اس سلسلے میں افغانستان کے لئے چین کے نمائندہ خصوصی کے جلد پاکستان کا دورہ کرنے سے متعلق بھی خبر دی ہے۔

 جو خوش آئند ہے اور چین کے پاکستان پر اعتماد کا مظہر ہے۔ دنیا اِس حقیقت کو تسلیم کر چکی ہے کہ افغانستان کے امن کی جانب والی ہر کوشش‘ ہر راستہ‘ ہر ذریعہ اور وسیلہ پاکستان سے ہو کر گزرتا ہے اور یہی وہ حقیقی مقام ہے‘ جسے نظرانداز کرنے کی وجہ سے افغانستان اِس حال تک پہنچا کہ اِس مسئلے کو طاقت اور مالی وسائل سے جس قدر سلجھانے کی کوشش کی گئی یہ اُتنا ہی الجھتا چلا گیا۔ طالبان کے ترجمان سہیل شاہین نے افغان ذرائع ابلاغ سے بات چیت اور سوشل میڈیا (ٹوئیٹر) پر جاری تبصروں میں کہا کہ ”کورونا وبا کے بعد اُنہوں نے غیرملکی ممالک کے دوروں کا آغاز پاکستان سے کیا ہے اور جلد ہی اُن کے ساتھی دیگر ممالک کا سفر بھی کریں گے۔“ اِس حکمت عملی سے واضح ہے کہ طالبان دنیا کے اُن تحفظات کو دور کرنا چاہتے ہیں‘ جو اُن کے سخت گیر طرزحکمرانی سے متعلق ہیں اور یہی درست طرزعمل ہے کہ ماضی کے تجربات اور اِن کے نتائج سے سبق سیکھتے ہوئے کم سے کم اُن غلطیوں کو نہ دہرایا جائے‘ جن کے باعث ”افغان امن گھتی“ سلجھائے نہیں سلجھ رہی! افغان امن کی راہ ہموار کرنے کے لئے طالبان پر پاکستان کا دورہ کرنے کے لئے دباو¿ تھا لیکن یہ تاثر پورا سچ نہیں کیونکہ بین الافغان مذاکرات سے راہ فرار طالبان نہیں بلکہ افغان حکومت کر رہی ہے۔

‘افغان طالبان وفد کی پاکستان آمد کو اِس تناظر سے بھی دیکھنا چاہئے کہ یہ ماضی میں ایسے کئی دوروں کو معطل کر چکے ہیں اور صرف اُسی صورت (بہ امر مجبوری) پاکستان آتے ہیں‘ جب انہیں ہر طرف سے سرخ جھنڈی دکھائی دینے لگے۔ رواں ماہ پاکستانی وزارت خارجہ نے طالبان رہنماو¿ں پر پابندیاں سخت کرنے کا اعلان کیا جس کے بعد طالبان کا وفد اسلام آباد پہنچا ہے تاہم اِن کا استقبال اور خیرمقدم سے اُمید ہے پاکستان طالبان پر اپنے رہے سہے (باقی ماندہ) اثر ورسوخ کا صحیح طور پر استعمال کر کے بین الافغان مذاکرات کے غیرمشروط شروع ہونے اور اِس کے نتیجہ خیز ہونے کے لئے طالبان کو نرم رویہ اختیار کرنے پر قائل کرسکتا ہے۔ درحقیقت چار دہائیوں سے جاری جنگ اور خونریزی نے افغان قیادت کے اعصاب کو اِس قدر سخت کر دیا ہے کہ اُن کے لئے مصلحت اور مو¿قف میں نرمی جیسی حکمتوں کے مقابلے یہ بات زیادہ آسان ہے کہ اپنے ہی ملک کی اینٹ سے اینٹ بجا دیں۔ سبق آموز ہے کہ جنگ کے منفی نفسیاتی اثرات صرف عوام ہی پر نہیں بلکہ اُس کی قیادت کی بھی سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیت کو متاثر کرتے ہیں۔