امریکہ اور چین نے ڈینگی اور زیکا وائرس کے خلاف انوکھی مہم شروع کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔امریکی ماحولیاتی ایجنسی نے برطانوی کمپنی آکسی ٹیک کو نرمچھروں کی ایسی نسل پیدا کرنے کی ذمہ داری سونپی ہے جو ڈینگی کے مادہ مچھروں کے ساتھ مل کرہماری نوجوان نسل میں سے کثیر تعداد میں طالب علم ملک میں بنیادی تعلیم حاصل کرنے کے بعد اعلیٰ تعلیم کیلئے کسی ترقی یافتہ ملک چلے جاتے ہیں لیکن ان میں بہت کم واپس لوٹتے ہیں۔ان میں سے اکثروہیں پر رہائش اختیار کر لیتے ہیں اور وہاں کی شہریت حاصل کر لیتے ہیں۔ ستم ظریفی تو یہ ہے کہ پاکستان کے اندر چند ایک اعلیٰ تعلیمی اداروں سے فارغ التحصیل نوجوان بھی روزگار کی تلاش میں بیرون ملک چلے جاتے ہیں اور اپنا اعلیٰ معیار و قابلیت غیر ملکیوں کیلئے صرف کرتے ہیں اور انہی ملکوں کی ترقی کی نذر ہو جاتے ہیں۔ بالکل اسی طرح ہماری سیاسی و غیر سیاسی لوگوں کی بھی یہی خواہش و کوششیں ہوتی ہیں کہ کسی طرح ایک ترقی یافتہ بیرون ملک کی شہریت حاصل کرلےں تاکہ اپنے بچوں کو وہاں کی تعلیم دلوا سکےں اور اپنے اہل و عیال کو وہاں سیٹ کرا سکےں اور ریٹائرمنٹ کے بعد خود بھی وہاں پر رہ سکےں جبکہ سروس کے دوران چھٹیاں منانے بھی باہر ہی جاتے ہیں۔ ان سیاسی و غیر سیاسی لوگوں میں ایسے بھی ہیں جو یہاں پر پیسہ غیر قانونی طریقے سے کماتے ہیں اور بیرون ممالک میں پراپرٹیز خریدتے ہیں تاکہ ہنگامی حالات میں پاکستان چھوڑ سکیں۔پاکستان کے آئین کے آرٹیکل 63 ون کے مطابق کوئی بھی پاکستانی جو دہری شہریت رکھتا ہو، وہ قومی اسمبلی، صوبائی اسمبلی اور سینیٹ کا ممبر نہیں بن سکتا۔ ماضی قریب میں ہماری اعلیٰ عدلیہ نے اس آرٹیکل کو لاگو کرنے کیلئے ایکشن لیا کیونکہ ہماری پارلیمنٹ میں بہت سارے ممبران دوسرے ملکوں کی بھی شہریت رکھتے تھے۔
سال 2013ءمیں دہری شہریت کے حامل گیارہ 11 ممبران کو اعلیٰ عدلیہ نے خود ہی ایکشن لیکر حکومت کے کسی بھی قسم کے عہدے کیلئے نااہل قرار دیا۔ اسی سال سینٹ نے اسکے متعلق ایک اور بل منظور کیا کہ 20 سے 22 گریڈ تک کوئی بھی سرکاری افسر دہری شہریت کا حامل نہیں ہو سکتا۔ ہمارے سیاستدانوں کی آپس میں نااتفاقی، غفلت اور بے حسی کیوجہ سے اس بل کو ابھی تک کوئی قانونی حیثیت نہیں دی گئی ہے دہری شہریت کا مسئلہ وقتاً فوقتاً مختلف اوقات و ادوار میں اٹھتا رہا ہے۔آصف علی زرداری کے دور صدارت میں جب یہ مسئلہ اٹھا تو بہت سارے لوگوں کے علاوہ رحمان ملک کو بھی سیاسی مخالفین کی جانب سے تنقید کا نشانہ بنایا گیا کیونکہ رحمان ملک برطانیہ کی شہریت رکھتے ہیں اور کہا گیا کہ زرداری نے وزارت داخلہ جیسے حساس ادارے پر ایک برطانوی شہری کو بٹھایا ہے۔ مخالفین کی جانب سے یہ دلیل پیش کی گئی کہ چونکہ برطانوی یا کوئی بھی غیر ملکی شہریت لینے کیلئے اس ملک کے کیساتھ وفادری کا حلف اٹھایا جاتا ہے اس لئے ایک دہری شہریت والا شخص بیک وقت دو ملکوں کیساتھ کیسے وفادار ہو سکتا ہے جبکہ وہ ایک حساس عہدے پر فائز بھی ہو۔ اس کیس کو اس وقت کے چیف جسٹس افتخار چودھری نے سنا اور رحمان ملک کو وزارت داخلہ کے عہدے کیلئے نااہل قرار دیا۔ زرداری نے رحمان ملک کو اس عہدے سے ہٹا کر اپنا مشیر خاص بنا دیا۔ نواز شریف کے پچھلے دور حکومت (سال 2018ء) میں یہ مسئلہ سابقہ چیف جسٹس ثاقب نثار صاحب نے اٹھایا۔ اس کیس کی پیروی کرتے ہوئے چیف جسٹس ثاقب نثار، جسٹس عمر عطا بندیال اور جسٹس اعجاز الاحسن نے متعلقہ اداروں کو حکم دیا کہ سارے سرکاری اداروں کے گریڈ 17 اور اس سے اوپر کے افسران کے بقلم خود دستخط شدہ کوائف جمع کیے جائیں، اور معلوم کیا جائے کہ کون کون دہری شہریت کے حامل افسران ہیں۔ اس پر ایف آئی اے نے سپریم کورٹ میں اپنی انویسٹی گیشن رپورٹ پیش کی کہ ایک ہزار کے قریب بڑے بڑے سرکاری عہدوں پر براجمان افسران دہری شہریت رکھتے ہیں، جسمیں 719 نے خود دستخط کیے ہیں کہ وہ دہری شہریت رکھتے ہیں لیکن باقی نے ماننے سے انکار کیا ہے۔ عدالتی کاروائی کے دوران جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ ایک ساتھ دو کشتیوں میں سوار نہیں ہوا جا سکتا۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیئے کہ ڈاکٹروں اور اساتذہ کی دہری شہریت رکھنے میں کوئی حرج نہیں لیکن حساس سرکاری اداروں پر ایسا شخص براجمان نہیں ہو سکتا۔ چیف جسٹس ثاقب نثار صاحب نے ریمارکس دیئے کہ اگر سیاسی شخصیات کی دہری شہریت رکھنے پر پابندی عائد ہے ۔
تو بیوروکریٹس پر کیوں نہیں؟ اور مزید کہا کہ ملک میں دھوکہ دہی سے پیسے بنا کر بیرون ملک جائیدادیں بنانے والے ابھی تک بڑے عہدوں پر بیٹھے ہیں۔ چیف جسٹس ثاقب نثار نے 52 صفحات پر مشتمل دہری شہریت کیس کا محفوظ شدہ فیصلہ سنایا کہ بڑے بڑے سرکاری عہدوں پر فائز کوئی بھی شخص دہری شہریت نہیں رکھ سکتا چاہے وہ آرمی چیف اور چیف جسٹس ہی کیوں نہ ہو اور کہا کہ حکومت کو اس متعلق سخت قانون سازی کرنی چاہئے، جسکے نفاذ کیلئے ابھی تک کوئی خاطر خواہ کوشش نہیں کی گئی ہے۔ یہی مسئلہ حال ہی میں پھر اٹھا جب وزیراعظم عمران خان صاحب کی ذاتی درخواست پر ڈاکٹر ظفر مرزا ڈبلیو ایچ او کی نوکری چھوڑ کر پاکستان آگئے اور وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے صحت لگ گئے۔ اسی طرح کینیڈا کی پیدائش رکھنے والی پاکستانی تانیہ ایدروس کو ملک بلا کر "ڈیجیٹل پاکستان فاو¿نڈیشن" کا سربراہ مقرر کیا گیا۔ پی ٹی آئی کے اراکین اور باقی سیاسی پارٹی کے ممبران نے جب دہری شہریت کا معاملہ ڈاکٹر ظفر مرزا اور تانیہ ایدروس کے حوالے سے اٹھایا تو دونوں نے اپنے استعفے وزیراعظم کو خود پیش کر دئیے۔ لیکن سیاسی حلقوں کے مطابق وزیراعظم صاحب نے پریشر میں آکر دونوں سے استعفے لے لیے تھے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب ہمارے آئین میں دوہری شہریت کے متعلق واضح احکام موجود ہے اور اس متعلق سابقہ چیف جسٹس سپریم کورٹ ثاقب نثار صاحب کا 2018ءمیں مدلل اور واضح فیصلہ موجود ہے تو پھر ہمارے حکومتی سربراہان سے یہ غلطی بار بار کیوں سرزد ہوتی ہے اور کیوں دہری شہریت کے حامل افراد کو اہم اور حساس اداروں پر متعین کر دیا جاتا ہے۔ ساری سیاسی جماعتوں کو مل بیٹھ کر ایسی قانون سازی کرنی چاہئے تاکہ آئندہ کسی بھی سرکاری اور حساس ادارے میں کوئی دہری شہریت رکھنے والا کسی بڑے عہدے پر فائز نہ ہو سکے۔
وائرس کا خاتمہ کریں گے لیبارٹری میں تیار کئے جانے والے مچھروں کو او ایکس5034کا نام دیا گیا ہے۔
جنیاتی طور پر تبدیل شدہ 75کروڑ مچھر تیار کرکے انہیں ڈینگی وائرس والے علاقوں میں چھوڑا جائے گا منصوبے میں شامل کمپنی کا کہنا ہے کہ انسانوں یا ماحول پر اس کے کوئی مضر اثرات مرتب نہیں ہوں گے جنیاتی طور پر تبدیل شدہ مچھر انسانوں میں ڈینگی، زیکا اور پیلے بخار جیسی مہلک بیماریاں پھیلانے والے مچھروں کا مقابلہ کریں گے ۔برطانوی کمپنی 2021سے مچھروں کی تیاری کا منصوبہ شروع کرے گی ۔او ایکس فائیو زیرو تھری فور بلاشبہ بائیو ٹیکنالوجی کی دنیا میں ایک انقلاب ہے مچھروں کی جنس تبدیل کرنے کا کامیاب تجربہ سائنس دانوں نے لیبارٹری میں ضرور کیاہوگا۔اور سائیٹیفک کیلکولیشن سے یہ نیتجہ اخذ کیا ہوگا کہ جنیاتی طور پر تبدیل شدہ نر مچھر جب مادہ ڈینگی مچھروں سے ملیں گے تو ان کی افزائش نسل رک جائے گی گویا یہ مچھروں میں خاندانی منصوبہ بندی کا پروگرام ہے۔فرض کریں کہ مادہ ڈینگی مچھر اس سازش کو بھانپ گئی تو پھر کیا ہوگا؟روایتی طور پر ہر بات کو سازش کے نکتہ نظر سے سوچنے والا ہمارا ذہن کہتا ہے کہ امریکہ اور برطانیہ کی طرف سے مچھروں کی جنس تبدیل کرنے کا جال ہم جیسے ترقی پذیر ملکوں کے لئے بنا جارہا ہے۔کیونکہ ڈینگی کے خطرات پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک پر اکثر منڈلاتے رہتے ہیںہم ڈینگی مچھروں کو مارنے یا بھگانے کے لئے کبھی سپرے کرتے ہیں کبھی مچھردانیوں کی آڑ لیتے ہیں کبھی بدن پر بدبودار تیل کی مالش کرتے ہیں لیکن ڈینگی کے خطرات کو نہیں ٹال سکے۔ اگر امریکہ اور برطانیہ کی مشترکہ سازش کامیاب ہوگئی یعنی جنیاتی طور پر تبدیل شدہ مچھروں نے ڈینگی کا خاتمہ کردیا تو ہمیں ہرسال ان ممالک سے او ایکس فائیو زیرو تھری فور مچھر بھی درآمد کرنے پڑیں گے اور سالانہ بجٹ میں مچھروں کی درآمد کے لئے اچھی خاصی رقم مختص کرنی پڑے گی ۔دنیا کے دو سو ممالک میں سے صنعتی طور پر ترقیافتہ ممالک کی تعداد بیس پچیس سے زیادہ نہیں ہے۔ پونے دو سو ترقی پذیر اور غریب ممالک کوسالانہ نقلی مچھر درآمد کرنے پر اربوں ڈالر خرچ کرنے ہوں گے یا وہ ٹیکنالوجی حاصل کرکے اینٹی ڈینگی مچھروں کی پیداوار خود شروع کرنی ہوگی۔اندازہ لگائیں کہ جب دنیا کے 175ممالک پانچ پانچ کروڑ مچھر بھی درآمد کریں گے تو مچھر ساز کمپنی کو اربوں کھربوں ڈالر کی آمدنی ہوگی۔
ان ترقیافتہ ممالک کے مکاتب کا دستور بھی نرالا ہے ایک طرف وہ انسانوں کو ڈینگی، کورونا، کینسر، زیابیطس، امراض قلب، گردوں اور خون کے امراض سے بچانے کے لئے کروڑوں اربوں ڈالر خرچ کرکے ادویات بناتے ہیں اور دوسری جانب انہی انسانوں کو مارنے کے ایٹم بم، ہائیڈروجن بم، بیلاسٹک میزائل ، جوہری آبدوز، بموں کی بارش کرنے والے بی باون،ایف 16 اور ایف 35 طیارے بناتے ہیں ۔وہ دانستہ طور پر مختلف ممالک کے درمیان تنازعات پیدا کرتے ہیں اور جنگی ماحول تخلیق کرتے ہیں پھر متحارب ممالک کو اپنی سلامتی کی بقاءکے لئے جدید اور تباہ کن ہتھیار خریدنے پر آمادہ کرتے ہیں۔جب ان ہتھیاروں کا خود ان کے خلاف استعمال ہونے کا خطرہ پیدا ہوجائے تو انہیں تباہ کن ہتھیار جمع کرنے کا مورد الزام ٹھہراکر اربوں ڈالر کا وہ اسلحہ تلف کرنے پر مجبور کرتے ہیں عراق اور لیبیا میں یہ کھیل ابھی چند سال قبل ہی کھیلا گیا ہے۔بات انسان دوست مچھروں سے شروع ہوئی تھی۔ابھی پانچ چھ مہینوں کے اندرامریکہ اور برطانیہ کی لیبارٹریوں میں تجارتی سطح پر مچھروں کی پیداوار شروع ہونے کی توقع ہے۔ممکن ہے کہ چند سالوں کے اندر ہمیں گائے ، بیل،بھینس، بھیڑ ، بکریوں اور مرغیوں کی طرح ڈینگی سے بچاﺅ کے لئے گھروں میں نقلی مچھر بھی پالنے ہوں گے۔ڈینگی کا سیزن پاکستان میں شروع ہوچکا ہے۔ہوسکتا ہے کہ ڈینگی مچھروں سے ڈرنے کا یہ آخری سال ہو۔توقع ہے کہ اگلے سال ڈینگی سیزن سے شروع ہونے سے قبل جنیاتی طور پر تبدیل شدہ مچھر دستیاب ہوں گے۔