خدشات مشکلات اورتحفظات

 صبر کا پیمانہ گویا کہ لبریز ہو چکا ہے اور انتظار کی گھڑیاں بہرصورت ختم کرنے کا اصولی فیصلہ بھی کر لیا گیا ہے۔ خیبرپختونخوا میں تعلیمی ادارے پندرہ ستمبر سے کھولنے کی تیاریاں مکمل ہوں یا نہ ہوں لیکن حکام اعلیٰ و بالا کے درمیان اِس فیصلے پر اتفاق رائے پایا جاتا ہے کہ بہرصورت تعلیمی سرگرمیاں 15ستمبر سے بحال کر دینی چاہئیں۔ کیا کورونا وبا کا خطرہ ٹل چکا ہے؟ کیا کورونا وبا سے بچے متاثر نہیں ہو سکتے اور یہ بچے بڑوں کی طرح کورونا وائرس پھیلانے کا ذریعہ نہیں بنتے؟ کیا پاکستان کرہ¿ ارض کا ایسا واحد ملک ہونے کا اعزاز رکھتا ہے جہاں کورونا وبا بذریعہ علاج نہیں بلکہ حکومت کی استقامت کے سامنے ہار گئی ہے؟ تعلیمی سرگرمیاں بحال کرنے کے لئے اگرچہ طے یہ ہوا تھا کہ درسی و تدریسی سرگرمیاں بحال کرنے کا فیصلہ کوئی بھی صوبہ اپنے طور پر نہیں کرے گا اور حتمی فیصلہ ’7 ستمبر کے روز‘ وفاقی سطح پر چاروں صوبوں کے متعلقہ حکام کریں گے لیکن خیبرپختونخوا نے پہلے ہی سے سکول کھولنے کے اقدامات و انتظامات کو حتمی شکل دےدی ہے اور اِس بارے بیانات و تفصیلات ذرائع ابلاغ کو ہر روز ہی جاری کی جا رہی ہیں‘ جن سے فیصلہ سازوں کی سوچ‘ آمادگی اور تیاریوں کا اندازہ لگانا قطعی مشکل نہیں۔ محکمہ¿ تعلیم کی جانب سے تعلیمی اداروں کے لئے کورونا وبا سے محفوظ رہنے اور اِس کے ممکنہ پھیلاو¿ کو روکنے کے لئے احتیاطی تدابیر (SOPs) تشکیل دے دیئے گئے ہیں جن کے مطابق سکولوں داخل ہونے سے پہلے ہر معلم (ٹیچر) اور طالب علم کے جسمانی درجہ¿ حرارت (بخار) کی پیمائش کی جائے گی اور اگر یہ 37.3 سنٹی گریڈ سے زیادہ ہوا تو ایسے طلبہ اور اساتذہ کو سکول داخل ہونے کی اجازت نہیں ہوگی جبکہ طلبہ اور اساتذہ کے لئے تمام وقت ماسک پہنے رہنا لازمی ہوگا۔ سکولوں میں سماجی فاصلے کا خیال رکھا جائے گا اور دن کے آغاز یا بصورت دیگر ہونے والے دعائیہ یا دیگر اجتماعات اور تقریبات کے انعقاد سے اجتناب کیا جائے گا۔

 کورونا کی علامات ظاہر ہونے کی صورت میں متاثرہ طلبہ یا اساتذہ کو سات دن کی چھٹی دی جائے گی اور اگر کسی کلاس میں ایک بھی طالب علم میں کورونا وائرس کی تصدیق ہوئی تو پوری کلاس کو چودہ دن کے لئے رخصت دی جائے گی۔ کورونا وبا سے احتیاط میں بچوں کو صابن اور صاف پانی سے بیس سیکنڈ تک ہاتھ دھونے اور نشستوں کے درمیان فاصلہ برقرار رکھنے جیسے انتظامات اُن سرکاری سکولوں میں بھلا کیسے ممکن ہوں گے کہ جہاں پینے کے پانی میسر نہ ہو اور جہاں ایک کمرے میں ایک سے زیادہ جماعت کے بچے زیرتعلیم ہوں؟ فیصلہ سازوں نے قواعد ایسے جاری کئے ہیں کہ جیسے اُنہیں زمینی حقائق کا علم نہیں اور وہ کسی دوسری دنیا سے آئے ہیں۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ سرکاری سکولوں کے پاس اِس قدر مالی وسائل نہیں کہ وہ سکول کے گیٹ پر ہر بچے اور معلم کے جسمانی درجہ¿ حرارت کی پیمائش کر سکیں گے کیونکہ عام قسم کا تھرمامیٹر جس کی قیمت ایک سو روپے تک ہوتی ہے اُس کے ذریعے درجہ حرارت ناپنے کے لئے فی بچہ کم سے کم ایک منٹ درکار ہوتا ہے اور اگر کسی چھوٹے سے چھوٹے یونٹ (پرائمری سطح کے سرکاری سکول) جہاں بچوں کی اوسط تعداد 100 سے زیادہ ہوتی ہے اِس عمل کو مکمل کرنے کے لئے تین گھنٹے درکار ہیں۔ فاصلے سے جسمانی درجہ حرارت کی پیمائش کرنے کے لئے آلے کی قیمت چار ہزار روپے ہے اور ہر سرکاری سکول کو یہ آلہ فراہم کرنا مالی طور پر ممکن نہیں ہے۔ تعلیمی سرگرمیاں بحال کرنے سے متعلق ’خدشات مشکلات اور تحفظات‘ صرف انتظامی ہی نہیں بلکہ اِن کا تعلق مالی امور سے بھی ہے۔

 عجیب مرحلہ¿ فکر ہے کہ جس صوبے کے 6458 سکولوں یعنی اُنیس فیصد سے زائد سرکاری تعلیمی اداروں میں پینے کے پانی جیسی بنیادی سہولت ہی دستیاب نہ ہو‘ وہاں ہاتھ کیسے دھوئے جائیں گے؟ اِسی طرح خیبرپختونخوا کے 4ہزار 899سکولوں میں ہاتھ دھونے کے لئے واش رومز نہیں ہیں اور صوبے کے طول و عرض میں تعلیمی اداروں کی کل تعداد 33ہزار477 ہے۔ محکمہ صحت کی تجویز کے مطابق کلاس میں صرف پچیس طلبہ بٹھائے جائیں اور صوبے کے 77فیصد سکولوں میں فی کلاس روم طلبہ کی تعداد چھبیس سے زیادہ ہے اور خیبرپختونخوا کے 2فیصد ہائی اور 16فیصد پرائمری سکولوں میں کلاس رومز کا فقدان الگ سے پریشان کن ہے جبکہ صوبے کے 38 فیصد یعنی 12 ہزار 563سکولوں میں ایک یا دو کلاس رومز ہیں۔ سرکاری سکولوں میں صابن اور ہینڈ سیناٹائزرکی فراہمی کے لئے پچاس کروڑ روپے درکار ہوں گے اور اِس قدر بھاری رقم دینے کے لئے محکمے کی جانب سے صوبائی حکومت کو تحریراً تجویز اِرسال کر دی گئی ہے‘ ای گورننس متعارف کروانے کا وعدہ کرنے والی ’تحریک انصاف‘ کے مرکزی اور صوبائی فیصلہ ساز خیبرپختونخوا میں مرکزی ڈیٹابیس تشکیل دے کر سرکاری و نجی سکولوں کے اعدادوشمار اکٹھا کر سکتے ہیں۔صوبائی حکومت کی ذمہ داری صرف سرکاری سکول ہی نہیں بلکہ نجی تعلیمی ادارے بھی ہیں‘ جنہیں یکساں طور پر کورونا وبا سے محفوظ رکھنے کے لئے بھی غوروخوض ہونا چاہئے۔ بالخصوص فیصلہ ساز اِس بات کو ممکن بنائیں گے ”کورونا حفاظتی انتظامات“ کرنے والے نجی سکول اِس کی قیمت صارفین سے وصول نہ کریں۔