معلم عبدالواحد (ایس ایس ٹی) کی جانب سے توجہ دلائی گئی ہے کہ ”درس و تدریس کے عمل میں والدین یا سرپرستوں کی شمولیت ضروری ہے اور اِس کے بنا سرکاری تعلیمی اداروں کی کارکردگی بہتر نہیں بنائی جا سکتی“ لیکن کئی دیگر ایسے نظرانداز پہلو بھی ہیں‘ جن کی وجہ سے تعلیمی شعبے سے متعلق اصلاحات کے خاطرخواہ نتائج برآمد نہیں ہو رہے لیکن ہر سال اربوں روپے خرچ ہو رہے ہیں۔ خلاصہ¿ کلام اور لب لباب یہ ہے کہ ’شعبہ¿ تعلیم کی اِصلاح کئے بغیر قومی و سماجی ترقی کے منجملہ اہداف حاصل نہیں کئے جا سکیں گے تو اِصلاح کا عمل ہمہ جہت اور قومی سطح پر مربوط و مسلسل ہونا چاہئے۔ اِس سلسلے میں اگر اب تک کی حکومتی کوششوں کو فہرست کیا جائے اور جائزہ لیا جائے تو اب تک ایک سے بڑھ کر ایک عمدہ‘ نفیس اور بہترین تصور پیش کیا گیا بلکہ ہر دور حکومت پہلے سے زیادہ بہتر تصور کے ساتھ سامنے آتی ہے اور تعلیمی اصلاحات کے لئے تصورات کا انبار لگ گیا ہے جن میں سے اگر کسی ایک کو بھی عملاً ممکن بن دیا جاتا اور قومی یا صوبائی فیصلہ سازوں کی کوششیں رنگ لاتیں تو یقینا آج پورے ملک میں ’یکساں نصاب تعلیم‘ رائج ہوتا یا کم سے کم مرحلہ وار یکساں نصاب تعلیم رائج کرنے کے عمل کا آغاز ہو چکا ہوتا جو قومی اِتحاد و اِتفاق کے ساتھ طبقاتی نظام تعلیم کے خاتمہ کے لئے بھی ضروری ہے۔
یکساں نصاب تعلیم کی ضرورت ہے اور یہ ضرورت ایک عرصے سے محسوس کی جا رہی ہے اور موجودہ حکومت نے بھی اِس ضرورت کو محسوس کرتے ہوئے غوروخوض یا بحث کے عمل کو آگے سے آگے ہی بڑھایا ہے لیکن کوئی ایسی حکمت عملی وضع نہیں کی گئی جس سے یکساں نصاب تعلیم رائج ہو سکتا اور اِس سلسلے میں مرحلہ وار حکمت عملی ہی مو¿ثر و کامیاب ہو گی اور اِس کا کوئی فوری حل نہیں ہے۔ سمجھنا ہوگا کہ تعلیم اور نصاب تعلیم میں خارجی مداخلت بھی ایک مسئلہ ہے اور ایک ایسا ملک اپنے فیصلوں میں بااختیار نہیں ہوسکتا جس کی معیشت قرضوں پر استوار ہو۔ یہی وجہ ہے کہ ہر دور کی طرح موجودہ حکمران بھی خواہش کے باوجود آگے نہیں بڑھ رہے۔ تاخیر مزید خرابیوں کو جنم دے گی اور مالی مشکلات حائل رہیں گی جن کے باعث پیدا ہونے والے مخصوص حالات کی وجہ سے یکساں نصاب تعلیم کا نفاذ و حصول ہر دن مشکل سے مشکل (پیچیدہ سے پیچیدہ تر) بنتا جا رہا ہے۔ پاکستان کا نظام تعلیم مالی وسائل کی تقسیم کے لحاظ سے بھی تقسیم ہے۔ ایک طرف ایسے تعلیمی ادارے ہیں جن میں بچے فرش نشیں ہیں اور اُن کے بیٹھنے کے لئے چٹائیاں یا میز کرسیاں دستیاب نہیں۔ سکولوں میں طلبہ کی تعداد کے مطابق کمرے‘ اساتذہ اور سہولیات میسر نہیں۔ سرکاری سکولوں میں بچے کتابوں سے نہیں بلکہ ایک دوسرے کو دیکھ دیکھ کر تعلیم حاصل کر رہے ہوتے ہیں۔ اِنہیں بجلی‘ پنکھا اور پانی چونکہ شروع دن سے میسر نہیں ہوتا اور نہ ہی اِنہوں نے نجی سکول قریب سے دیکھے ہوتے ہیں ۔
اِس لئے اِنہیں اپنی محرومیوں کا احساس بھی نہیں ہوتا۔ دوسری طرف ائرکنڈیشنڈ سکولوں میں کھیل کے بڑے بڑے میدان اور جہاں بچوں کی تعلیم کے ساتھ اُن کی جسمانی صحت و تندرستی جیسے امور کا خیال رکھا جاتا ہے۔ حیران کن امر یہ ہے کہ وزیراعظم عمران خان خود بھی ایک یونیورسٹی کے فیصلہ سازوں میں شامل ہیں‘ جہاں انتہائی اعلیٰ درجے کی تعلیم باسہولت و پرشکوہ ماحول میں دی جاتی ہے تو کیا ہمارے وزیراعظم کو اِس حقیقت کا علم نہیں کی تعلیمی اداروں کو یکساں نصاب کے ذریعے ایک دوسرے کے قریب لانے سے پہلے اِس بات کی بھی ضرورت ہے کہ تمام سکولوں میں فراہم کردہ سہولیات کا معیار بھی یکساں ہونا چاہئے؟ کیا یہ مطالبہ اپنی جگہ تلخ نہیں کہ بچوں کو کم سے کم نصاب کی کتب تو میسر ہونی چاہئیں۔ افسوس کہ پاکستان میں ایسے سکول بھی ہیں جہاں سرکاری نصاب کی ایک کتاب کئی بچے مل کر استعمال کرتے ہیں اور اِن بوسیدہ کتابوں کے اوراق کئی سال سے استعمال ہونے کی وجہ سے خستہ ہو چکے ہوتے ہیں۔ تعلیم کو چند درسی اسباق کو بار بار پڑھنے کے عمل سے تشبیہ دی جاتی ہے جو کہ بنیادی غلطی ہے۔ اِس سلسلے میں فیصلہ سازوں کو بیرون ملک کے تعلیمی نظم و ضبط اور نصاب کی خوبیوں کا مطالعہ کرنا پڑے گا کہ وہاں کس طرح طلبہ کی ذہانت و قابلیت کو اُبھارنے کے لئے اُن کی انفرادی شخصیت کو داو¿ پر نہیں لگایا جاتا بلکہ طلبہ کی ذہنیت اور اُن کی سماجی و مالی حالت کو سمجھا جاتا ہے۔ والدین کو تعلیم کے عمل میں ہر مرحلے پر شریک کیا جاتا ہے۔ یہ نہیں ہوتا کہ بچے اساتذہ کے حوالے کر دیئے جائیں اور والدین صرف اور صرف فیسیں اور تعلیم کے اخراجات برداشت کرتے رہیں۔ زیادہ پُرانی بات نہیں۔
چودہ اگست کے روز پشاور میں ’ریپیڈ بس ٹرانزٹ المعروف میٹرو بس‘ کا باضابطہ افتتاح ہوا اور پہلے ہی دن مسافروں نے بیش قیمت درآمد شدہ بسوں کی نشستوں شیشوں‘ پائیدانوں اور دروازوں کو کرید کرید کر نقصان پہنچانا شروع کر دیا۔ دھکم پیل کے باعث کئی اسٹیشنوں پر لگے الیکٹرانک آلات اور بیش قیمت مشینیں ٹوٹ گئیں‘ جنہیں مستقبل میں تحفظ دینے کے لئے حفاظتی اہلکاروں کی تعداد میں اضافہ کرنا پڑا جو کہ اِس منصوبے کو رواں دواں رکھنے پر اُٹھنے والا اضافی اور غیرضروری خرچ ہے۔ یہ سب اِس لئے ہمارے سامنے ہیں کیونکہ ہمارے ہاں روایتی و غیرروایتی نصاب تعلیم میں تربیت شامل ہی نہیں اور نہ ہی سرکاری و نجی املاک سے متعلق بچوںکو شروع سے آخر دن تک ذمہ داری کا احساس دلایا جاتا ہے۔ ضرورت اِس امر کی ہے کہ نصاب تعلیم کو کتابوں اور اسباق کی حد تک محدود نہ سمجھا جائے بلکہ اِس میں تربیت اور عملی تربیت کے عناصر کو شامل کیا جائے۔ والدین کو تعلیم و تربیت کا حصہ بنانا بھی یکساں ضروری ہے اور یہی وہ بنیادی نکتہ ہے جو سرکاری و نجی تعلیمی اداروں کے درمیان زمین و آسمان کے فرق کو ظاہر کرتا ہے اور یہی امتیاز سب سے پہلے ختم ہونا چاہئے۔