میٹروبس:پہلاسفر

 اہل پشاور اجنبیت کے طویل و تاریک دور سے گزرتے ہوئے ایک دوسرے کے ہم سفر ہو رہے ہیں‘ کیا یہ نتیجہ کم اہم ہے؟ پشاور کے معروف صنعتی و کاروباری گھرانے سے تعلق رکھنے والے ’اسد اشرف‘ نے ’ریپیڈ بس ٹرانزٹ (بی آر ٹی) المعروف میٹرو بس‘ میں اپنے ’پہلے سفر‘ کی روداد ’فیس بک‘ پر جاری کی ہے جس سے نہ صرف اُن کے اپنے 3283 فیس بک دوستوں کو ”نئے پشاور“ کے بارے میں جاننے کا موقع ملا ہے بلکہ یہ ’مختصر سفرنامہ‘ ایک غیرروایتی مو¿رخ اور غیر روایتی وسیلے (سوشل میڈیا کی وساطت سے) اُس وقت تک کےلئے محفوظ ہو گیا ہے‘ ۔گل بہار سے حیات آباد نقل مکانی کرنے والے56 سالہ اسد اشرف کی مرنجاں مرنج شخصیت کا اکلوتا حوالہ اُن کا آبائی کاروبار ہی نہیں بلکہ خود کو ہر قسم کی سیاست اور بالخصوص انتخابی سیاست سے الگ رکھنے میں وہ کم سے کم اب تک اچھے خاصے کامیاب رہے ہیں‘اسد کا شمار پشاور کے اُن چند مالی و سماجی اور سیاسی بااثر خاندانوں میں ہوتا ہے جہاں آج بھی اپنی مادری زبان ’ہندکو‘ ہی میں بات چیت کو ترجیح دی جاتی ہے اسد ’لائنز کلبس‘ کی شاخ کی سربراہی بھی کر چکے ہیں اور اِس غیرسرکاری فلاحی تنظیم کے پلیٹ فارم سے اندرون و بیرون ملک پاکستان کی نمائندگی کا اعزاز رکھتے ہیں۔اسد اشرف نے ستائیس اگست کی شام ’میٹرو بس‘ میں اپنے دفتر (اشرف روڈ) سے گھر (حیات آباد) تک کے سفر کی لمحہ بہ لمحہ روداد کسی ماہر تاریخ داں کی طرح رقم کی ‘اسد اشرف اپنے دفتر سے (ریتی بازار سے براستہ اشرف روڈ) 4:55 منٹ پر پیدل روانہ ہوئے اور پانچ منٹ میں ’ملک سعد سٹیشن (فردوس سینما سٹاپ) پہنچے‘ جہاںاگلے پانچ منٹ میں اُنہوں نے سفری کارڈ حاصل کیا اور پانچ بجکر بارہ منٹ پر بس میں سوار ہوئے۔

 یہاں سے اُن کے سفر نامے کا دلچسپ حصہ شروع ہوتا ہے۔ بس میں وائی فائی یعنی انٹرنیٹ موجود تھا لیکن اُن کا فون باوجود کوشش کنیکٹ نہیں ہو سکا۔ موبائل فون چارج کرنے کی سہولت حسب اعلان موجود تھی۔ ائرکنڈیشن بہترین انداز سے کام کر رہا تھا۔ بس میں مستورات کےلئے مخصوص حصے میں مرد مسافروں کی موجودگی نہیں ہونی چاہئے تھی جبکہ خواتین کےلئے مختص کئے گئے آمدورفت کے راستے پر بھی مردوںکا ہجوم نظم و ضبط کے فقدان کی نشاندہی کرتا ہے اور اگر شروع دن سے اِس بات کا خیال نہ رکھا گیا تو عادت بن جانے کے بعد اصلاح مشکل ہو جائے گی۔ بس میں نشستوں کی گنجائش سے زیادہ مسافر سوار تھے لیکن اسد کے بقول ”ایسا تو یورپی ممالک میں بھی ہوتا ہے کہ دن کے اختتام پر جبکہ بیک وقت بہت سے لوگ گھروں کو واپس لوٹ رہے ہوتے ہیں تو وہاں پبلک ٹرانسپورٹ میں اِسی قسم کے مناظر دیکھنے کو ملتے ہیں۔“ بہرحال 5 بج کر 12 منٹ سے شروع ہونے والا اُن کا سفر ’حیات آباد‘ کے لالہ زار سٹاپ تک 6 بجکر 19 منٹ یعنی ایک گھنٹہ سات منٹ میں مکمل ہوا اور اگلے چھ منٹ پیدل چلنے پر وہ اپنے گھر کی دہلیز پر کھڑے تھے اور شاید ایک لمحے کےلئے سوچا ہو کہ کیا وہ کوئی خواب دیکھ رہے ہیں یا یہ ایک حقیقت ہے کہ اب نہایت ہی آرام دہ‘ محفوظ اور باعزت سفری سہولت کا استعمال کرتے ہوئے گرمی اور گردوغبار سے دامن بچاتے ہوئے پشاور میں بھی سفر کیا جا سکتا تھا۔

 اسد نے یہ تو نہیں لکھا کہ اُنہوں نے آخری مرتبہ پشاور کی پبلک ٹرانسپورٹ میں سفر کب کیا تھا اور تب اور آج کے تجربے کا موازنہ کرتے ہوئے اُنہیں کیسا محسوس ہوا لیکن جو ایک بات طے ہے وہ یہ کہ ’میٹرو بس‘ ہر دن پشاور کو بدل رہا ہے۔ قبل ازیں پشاور کے بااثر افراد اِس بات کا تصور بھی نہیں کر سکتے تھے کہ وہ کبھی پبلک ٹرانسپورٹ میں سفر کریں گے لیکن آج صورتحال مختلف ہے اور تحریک انصاف نے بالآخر وہ کر دکھایا ہے جو اِس سے قبل پشاور کی فیصلہ سازی پر اختیار رکھنے والے نہ کر سکے۔ اگرچہ سیاسی وابستگی کے باعث اسد اشرف کے اہل خانہ کی جانب سے ’میٹرو بس‘ منصوبے‘ اِس کی لاگت‘ تکمیل میں تاخیر اور فعالیت کے ہر پہلو پر تنقید سامنے آئی ہے لیکن اُمید کی جاسکتی ہے کہ سوشل میڈیا پر اظہار خیال کرنے کے ساتھ اسد اپنی بیوی و بچوں اور دیگر اہل خاندان کو بھی ’میٹرو بس میں پہلے سفر کی کہانی فخر سے سنائیں گے۔ ”سفر طویل سہی‘ حاصل سفر یہ ہے ....
وہاں کو بھول گئے اور یہاں کو پہچانا (وزیرآغا)۔“