وفاقی حکومت نے ملک بھر میں تمام تعلیمی ادارے 15ستمبر سے کھولنے کا اعلان کردیا ہے۔درس و تدریس کی بحالی کا فیصلہ بین الصوبائی وزرائے تعلیم کے اجلاس میں کیا گیاتاہم تمام سرکاری اور پرائیویٹ تعلیمی اداروں کو ایس او پیز پر عمل درآمد یقینی بنانے کی ہدایت کی گئی ہے۔ جن میں فیس ماسک، سینٹی ٹائزرز کا استعمال، ہاتھ دھونے کی سہولت اور سماجی فاصلے برقرار رکھنا شامل ہے‘ محکمہ تعلیم نے عندیہ دیا تھا کہ سکولوں میں بچوں کی زیادہ تعداد کے پیش نظر دو شفٹوں میں کلاسیں لینے کی تجویز زیرغور ہے تاہم اس حوالے سے محکمہ تعلیم اور پرائیویٹ سکولوں کے مالکان کی تنظیم نے کوئی حتمی فیصلہ تاحال نہیں کیا۔وفاقی وزیرتعلیم شفقت محمود نے چاروں صوبوں، گلگت بلتستان اور آزاد جموں و کشمیر کے نجی تعلیمی اداروں کو بچوں کی فیسوں میں بیس فیصد کمی کے حکومتی فیصلے پر ہر صورت میں عمل درآمد کرنے کی بھی ہدایت کی ہے۔ اور خلاف ورزی کے مرتکب سکولوں کو تادیبی کاروائی کے بارے میں خبردار کیا ہے‘ ملک بھر میں دینی مدارس نے اگست کے وسط میں ہی درس و تدریس کا آغاز کردیا ہے ۔وہاں ایس اور پیز پر کس حد تک عمل درآمد ہوتا ہے اس حوالے سے حکومت یا صحت کے اداروں کی طرف سے کوئی شکایت سامنے نہیں آئی۔تعلیمی اداروں کی بندش میں توسیع کا فیصلہ عید الاضحیٰ کے موقع پر کورونا وائرس کے ممکنہ پھیلاﺅ کے خدشے کے پیش نظر کیاگیا تھا۔
کیونکہ عیدالفطر پر تجارتی مراکز کھولنے کی وجہ سے وباءکے پھیلاﺅ میں اضافہ دیکھنے میں آیا تھااور ملک میں کورونا وباءکی شرح بلند ترین سطح پر پہنچ گئی تھی۔ تاہم اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے بقرعید کے بعد کورونا کیسز میں نمایاں کمی آئی ہے۔کورونا سے روزانہ اموات کی شرح جون جولائی میں سو سے زیادہ تھی اب یہ شرح روزانہ دس سے کم رہ گئی ہے اور رجسٹرڈ کیسز کی تعداد میں بھی نمایاں کمی آئی ہے تاہم یہ وباءابھی مکمل طور پر ختم نہیں ہوئی۔دنیا کے بعض ممالک میں کورونا کے کیسز میں پھر اضافہ ہوا ہے جس کی وجہ سے نیوزی لینڈ اور دیگر ممالک دوبارہ لاک ڈاﺅن پر مجبور ہوئے ہیں یہ بھی بتایا جارہا ہے کہ ہانگ کانگ میں کورونا سے صحت یاب ہونے والے شخص میں دوبارہ کورونا وائرس کی تصدیق ہوئی ہے اس لئے ہمیں احتیاط کا دامن کسی صورت بھی نہیں چھوڑنا چاہئے۔ کورونا کی وجہ سے بچوں کی تعلیم بہت متاثر ہوئی ہے۔چھ مہینے تک تعلیمی ادارے بند رہے ہیں۔
اس دوران بعض تعلیمی اداروں نے آن لائن درس وتدریس کا سلسلہ شروع کردیا تھا مگر اس سے طلباءخاطر خواہ استفادہ نہیں کرسکے۔ شہری علاقوں میں انٹرنیٹ سسٹم میں بار بار خلل پڑنے کی وجہ سے پڑھائی متاثر ہوتی رہی جبکہ دیہی علاقوں میں انٹرنیٹ کی سہولت سرے سے موجود نہ ہونے کی وجہ سے بچے آن لائن پڑھائی سے یکسر محروم رہے۔تعلیمی ادارے کھلنے سے ملک بھر میں روزانہ کروڑوں بچے گھروں سے نکلیں گے قوم کے مستقبل کے معماروں کو وباءکے خطرات سے بچانا والدین ، اساتذہ، حکومت اور سکول انتظامیہ کی مشترکہ ذمہ داری ہے۔ اس لئے ایس او پیز پر سختی سے عمل درآمد اور حکومت کی طرف سے اس کی کڑی اور موثر نگرانی ناگزیر ہے۔ محکمہ تعلیم اور پرائیویٹ سکولز ریگولیٹری اتھارٹی کو 15ستمبر سے قبل تعلیمی اداروں کے لئے ایس او پیز وضع کرنے ہوں گے اور ان پر عمل درآمد یقینی بنانے کے لئے بھی لائحہ عمل طے کرنا ہوگا۔کلاس رومز اور بچوں کو سکول لانے اور گھر لے جانے والی بسوں، ویگنوںاور سوزوکیوںمیں سماجی فاصلے برقرار رکھنابہت ضروری ہے۔اس لئے تمام سکولوں میں دوشفٹیں شروع کرنا ناگزیر ہوچکا ہے۔لیکن دو شفٹوں میں کلاسیں شروع کرنے کا اضافی بوجھ والدین پر ڈالنے سے ہرممکن احتراز کرنا چاہئے کیونکہ والدین کا روزگار بھی لاک ڈاﺅن کی وجہ سے متاثر ہوا ہے اس ملک میں ایک کروڑ سے زیادہ افراد لاک ڈاﺅن اور کاروبار کی بندش کی وجہ سے بیروزگار ہوئے ہیں ان کے لئے بچوں کو دو وقت کی روٹی کھلانا اور ان کے تعلیمی اخراجات پورے کرنا دوبھر ہوچکا ہے وہ اضافی بوجھ اٹھانے کے ہرگز متحمل نہیں ہوسکتے۔