خیبر پختونخوا حکومت نے صوبے کی سو فیصد آبادی کو صحت کارڈ کے تحت مفت علاج معالجے کی سہولت فراہم کرنے کا اعلان کیا ہے ۔ اس سلسلے میں محکمہ صحت خیبر پختونخوا اور سٹیٹ لا ئف انشورنس کارپوریشن کے درمیان معاہدے پر دستخط کردیئے گئے‘صحت کارڈ پر ہر خاندان کو سالانہ دس لاکھ روپے تک مفت علاج کی سہولت دستیاب ہوگی۔اس کارڈ کا حامل خاندان سرکاری اور نجی ہسپتالوں میں مفت علاج کرا سکے گااس سے پہلے صوبے کی40فیصد آبادی صحت انصاف کارڈ سے استفادہ کر رہی تھی۔معاہدے پر دستخطوں کی تقریب میں وزیراعظم عمران خان گورنر اور وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا بھی موجودتھے اپنے خطاب میں وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ یہ خیبر پختونخوا حکومت کا بہت بڑا قدم ہے بیماری کے علاج معالجے پر خاندان کا بھاری خرچ ہوتا ہے غریب آدمی کا بیماری سے پورا گھر کا بجٹ متاثر ہو جاتا ہے ہم محدود وسائل کے باوجود ہیلتھ کارڈ جاری کر رہے ہیں وزیراعظم نے حکام کو ہدایت کی کہ ہمارے پاس تمام خاندانوں کاڈیٹا موجود ہونا چاہیے یقینی بنا ئیں کہ سب کے پاس ہیلتھ کارڈ ہو۔ اس سے ڈیٹا بیس بنے گا تاکہ صحت پر اخراجات کومانیٹر کیا جا سکے ۔وزیراعظم نے کہا کہ خیبر پختونخوا حکومت کی جانب سے کارڈ جا ری کر نے کے بعد اب باقی صوبوں میں بھی صحت انصاف کارڈ دینے کا دباﺅ ہوگا۔انہو ںنے کہا کہ جب غریب کے لئے کام کیا جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس میں برکت ڈالتا ہے۔مہنگائی اور بےروزگاری کے اس دور میں غریبوں کے لئے مفت علاج کی سہولت کسی نعمت سے کم نہیں، جسے صوبائی حکومت کا انقلابی منصوبہ قرار دیا جاسکتا ہے۔تعلیم اور صحت دو ایسے شعبے ہیں جو ہر شہری کی بنیادی ضروریات میں شامل ہیں تاہم دونوں کے اخراجات متوسط اور غریب طبقے کی استعداد سے باہر ہوچکے ہیں صوبے کی ستر فیصد آبادی دیہات میں رہتی ہے جہاں مناسب طبی سہولیات کے فقدان کی وجہ سے شہر کے بڑے ہسپتالوں پر مریضوں کا بوجھ روز افزوں بڑھتا جارہا ہے۔
ضلعی ہیڈکوارٹر ہسپتالوں میں بیماری کی تشخیص سے متعلق سہولتوں کا ہنوز فقدان ہے عوام کو ان کے گھروں کے قریب مرض کی تشخیص اور علاج معالجے کی مفت اور معیاری سہولیات صحت انصاف کارڈ کے ذریعے فراہم کرنے کےلئے تمام ضلعی اور تحصیل ہیڈ کوارٹر ہسپتالوں کو ایکسرے، الٹراساونڈ، ایم آر آئی، سی ٹی سکین، انڈوسکوپی اور تمام لیبارٹری ٹیسٹوں کی سہولیات سے آراستہ کرنا ہوگا۔بصورت دیگر لاسپور، یارخون، کھوت، ریچ، کریم آباد،گرم چشمہ، مداک لشٹ، ارندو سے لے کر کوہستان، شانگلہ، تورغر ، بٹگرام، بونیر، دیر، مہمند، باجوڑ، خیبر، کرم، اورکزئی، شمالی و جنوبی وزیرستان، ٹل، ہنگو، لکی مروت، بنوں اور ڈیرہ اسماعیل خان سے تعلق رکھنے والے مریضوں کو صحت کارڈ پر مفت علاج کےلئے پشاور، ایبٹ آباد، مردان اور سوات کے ہسپتالوں کا رخ کرنا پڑے گا۔بڑے شہروں کے تدریسی ہسپتالوں کو پہلے ہی مریضوں کی بہتاب کی وجہ سے مشکلات کا سامنا ہے۔ صحت کارڈ کے حوالے سے ایک الجھن یہ ہے کہ کیا صوبائی حکومت تمام خاندانوں کو کارڈ فراہم کرے گی یا قومی شناختی کارڈ کو ہی صحت کارڈ کے طور پر مفت علاج کے لئے بروئے کار لایاجاسکتا ہے۔طبی عملے کی ملی بھگت سے صحت کارڈ کے غلط استعمال کے خدشات بھی اپنی جگہ موجود ہیں۔صحت کارڈ کے ذریعے مفت علاج کے نظام کو نقائص سے پاک اور شفاف بنانے کےلئے حکمت عملی وضع کرنے کی ضرورت ہے‘ہمارے صوبے میں غربت کی شرح تقریباً پچاس فیصد ہے‘ جبکہ پینتیس سے چالیس فیصد آبادی تنخواہ دار اور سفید پوش لوگوں پر مشتمل ہے۔
تاہم دس سے پندرہ فیصد آبادی متمول لوگوں کی ہے جن میں جاگیر دار، سرمایہ دار، کارخانے دار‘ بڑے تاجر‘ برآمدکنندگان اور سیاست دان اور اعلیٰ افسران شامل ہیں یہ لوگ بیرون ملک بھی اپنے علاج کا خرچہ اٹھا سکتے ہیں اس لئے انہیں مفت علاج سے استثنیٰ قرار دینا ضروری ہے۔صوبائی حکومت اور محکمہ صحت کو عوام کے وسیع تر مفاد میں یہ بھی واضح کرنا چاہئے کہ انہیں صحت انصاف کارڈ پروگرام کے تحت مفت علاج کی سہولت کب سے میسر ہوگی۔ کن کن بیماریوں کا صحت کارڈ کے ذریعے علاج ہو گا اور صوبے کے کن کن سرکاری اور پرائیویٹ ہسپتالوں میں یہ سہولت میسر ہوگی۔حکومت کو یہ بات بھی یقینی بنانی ہوگی کہ عوامی فلاح کے اس عظیم منصوبے کو آئندہ کوئی حکومت رول بیک نہ کرسکے۔