دس محرم الحرام کے روز پشاور شہر اور اِس کے مضافاتی علاقوں میں ’موبائل فون‘ خاموش رہے جبکہ ’یوم عاشور‘ سے ایک روز قبل (نو محرم الحرام) کے روز بھی صدر اور اندرون شہر کے کئی علاقوں میں تجارتی مراکز‘ عمومی آمدورفت اور موبائل فون سروسزبند رکھی گئیں جبکہ حفظ ماتقدم کے طور پر اِس قسم کے انتہائی حفاظتی اقدامات کو صرف اُنہی علاقوں تک محدود رکھنا چاہئے تھا جہاں محرم الحرام کی مناسبت سے مذہبی اجتماعات یا جلوسوں کی برآمدگی‘ سفر اور اختتام ہوتا ہے۔پہلی تکنیکی تجویز ’موبائل فون سروسز‘ کے کام کرنے کا طریقہ کار کو سمجھنے سے متعلق ہے جو انتہائی سادہ ہے۔ یہ کھمبے بیس سے چالیس کلومیٹر کے علاقے میں تابکار شعائیں پھیلاتے ہیں چونکہ اندرون شہر عمارتیں بلند اور گلی کوچے پرپیچ ہیں اِس لئے موبائل فون کے یہ تابکار سگنل بمشکل آٹھ سے دس کلومیٹر تک ہی کارگر ہوتے ہیں یعنی اگر انتظامیہ کسی خاص حالات میں اور کسی خاص ضرورت کے تحت صرف اُن چند موبائل ٹاورز ہی کو بند کر دیا کریں کہ جو مذہبی اجتماعات یا جلسے جلوسوں کے قریب و متصل ہیں تو باقی ماندہ شہر کو موبائل سروسز کی بندش جیسے عذاب سے گزرنا نہیں پڑے گا۔ دوسری تکنیکی تجویز یہ ہے کہ دور دراز علاقوں سے آنے والے موبائل فون کے کمزور سگنلز کو جامرز کے ذریعے روکا جا سکتا ہے اور اِس مقصد کے لئے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے پاس خصوصی آلات پہلے ہی سے موجود ہیں جنہیں صرف وزرا¿ کے ہمراہ دوران سفر استعمال کیا جاتا ہے چونکہ محرم الحرام کے دوران صوبائی کابینہ کے اراکین اپنی رہائشگاہوں تک محدود ہوتے ہیں اور اُنہیں اِس بات کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی کہ وہ اِس ”مبینہ نازک وقت“ میں عوام کے درمیان رہیں اور انتظامیہ کو فعال رکھنے کےلئے اپنی موجودگی یقینی بنائیں تو موبائل سگنلز روکنے کے مذکورہ آلات اِن خاص ایام میں عوام کی جان و مال کی حفاظت کےلئے استعمال کرنے میں حرج نہیں اور نہ ہی استعمال سے یہ گھس جائیں گے۔ عوام کے ٹیکسوں سے خریدے گئے آلات اگر کبھی کبھار عوام ہی کے لئے استعمال ہوں تو اِس میں بخل سے کام نہیں لینا چاہئے۔
تیسری تکنیکی تجویز یہ ہے کہ جس طرح گزشتہ کئی برس سے سیکورٹی انتظامات میں مذہبی اجتماعات بشمول جلسے جلوسوں کی انتظامیہ کو کہا جاتا ہے کہ وہ شرکا کی جامہ تلاشی خود لیں بالکل اِسی حکمت عملی کے تحت مذہبی اجتماعات کے منتظمین کو پابند بنایا جا سکتا ہے کہ اپنے وسائل سے موبائل سگنل جامرز لگائیں۔ ایک گھریلو چھوٹے پیمانے پر کام کرنے والے آلے کی قیمت آٹھ سے پندرہ ہزار روپے کے درمیان ہوتی ہے اور اِسے استعمال کرنا قانوناً جرم ہے لیکن خصوصی حالات میں جس طرح گاڑیوں کے کالے شیشے لگانے کے پرمٹ دیئے جاتے ہیں اِسی طرح صوبائی وزارت داخلہ مذہبی اجتماعات کے منتظمین کو جامرز نصب کرنے اور اِن کے استعمال کے ایام و اوقات کار کی ’مشروط اجازت‘ دے سکتی ہے۔ یہ بالکل اسلحہ لائسنسوں کی طرح کا معاملہ ہے کہ جن کے قواعد و ضوابط اور فیس طے شدہ ہے اور اگر اِسی طرح موبائل سگنل جیمرز کے لائسنسوں کا بھی اجرا¿ کیا جائے تو اِس سے حکومت کو اضافی آمدنی حاصل ہونے کے علاوہ مخصوص ایام میں پورے پشاورکے موبائل فون سگنلز بند کرنے کی ضرورت پیش نہیں آئے گی اور اُن سبھی علاقوں میں معمولات زندگی حسب سابق جاری رہیں گے جہاں محرم الحرام کی مناسبت سے سرگرمیاں نہیں ہوتیں۔نمائندے بہت ہیں۔ نمائندگی کرنے والوں کی کمی نہیں اور نہ ہی پشاور کی نسبت رکھنے والوں کا قحط ہے لیکن مسئلہ اُس فقدان سے متعلق ہے جو ’دردمندی اور احساس‘ کی کمی سے متعلق ہے۔ پشاور کے قبرستان‘ باغات‘ سبزہ زار‘ بلدیہ کی اراضی‘ حتیٰ کہ نکاسی¿ آب کے نالے تک مقبوضہ ہیں اور تجاوزات پھیلنے کا سلسلہ جاری ہے۔
پشاور کا تذکرہ کرنے والوں کے منہ سے پشاور کے حال احوال بارے جو کچھ بھی ادا ہوتا ہے‘ اُس پر ذاتی‘ سیاسی یا پھر کاروباری مفادات غالب ہوتے ہیں۔ آخر پشاور کو اِس کا ”واجب الادا¿ حق“ کب ملے گا؟ پشاور اور اِہل پشاور کی قیادت کا زعم رکھنے والے اگر کسی ایک بات کو نہیں سمجھ رہے تو وہ پشاور کی تاریخ و ثقافت‘ یہاں رہن سہن کا ایک خاص اسلوب ہے جو صوبے یا ملک کے دیگر حصوں سے مختلف ہے اور یہی وہ خاص نکتہ ہے کہ جس کی اہمیت کو مدنظر رکھتے ہوئے حکیمانہ حکمت عملیاں بنانے والوں کو اپنے طرزِفکروعمل کی اِصلاح کرنی چاہئے کہ اب تک اُن کے طرزِحکمرانی نے پشاور کے کسی بھی ایک مسئلے کو حل نہیں کیا ہے۔ ضرورت سول سوسائٹی کی تنظیم سازی اور تھنک ٹینک یعنی سوچ بچار کرنے والے ہم خیالوں پر مشتمل بیٹھک کے قیام کی ہے۔ سوچئے کہ غیرسیاسی اور غیرانتخابی مقاصد کے لئے بھی تو اِتحاد بنائے جا سکتے ہیں اور بنائے جانے چاہئیں۔ وقت ہے کہ پشاور کو شہرخموشاں سمجھنے کی بجائے اِس کی زندگی‘ رونقیں‘ بھائی چارہ‘ اخوت‘ ملنساری‘ ادب و احترام اور اثاثوں کی واگزاری و بحالی کے لئے متحد ہوا جائے۔ ایک ایسا اتحاد اَب نہیں تو کب جو خالصتاً پشاور سے متعلق ہو؟