منصوبہ سازی سے منصوبہ بندی اور دوطرفہ تعاون تک ہر مرحلہ خوش اسلوبی سے طے ہو رہا ہے لیکن اَمن اور قیام اَمن کی پائیداری کی خواہش کے ساتھ پاکستان کی جانب سے افغانستان کی طرف دیکھنے کو کمزوری نہیں سمجھنا چاہئے۔ تازہ ترین کوشش‘ افغانستان پاکستان ایکشن پلان برائے امن و یکجہتی نامی حکمت عملی کے تحت پاکستان اور افغانستان کے درمیان دوطرفہ ملاقاتیں ایک تعطل کے بعد دوبارہ شروع ہوئی ہیں اور دونوں فریقین نے تعلقات میں مسلسل خرابیاں پیدا کرنے والے عوامل سے نمٹنے کے لئے اکٹھے کام کرنے کے جس عزم کا اظہار کیا‘ وہ اپنی جگہ قیمتی ہے لیکن جہاں کہیں اور جب کبھی بھی دو ممالک کے درمیان اِس قسم کے رابطے یا بات چیت ہوتی ہے تو اس کا مرکزی نکتہ یہی ہوتا ہے کہ دونوں ممالک نے مل جل کر کام کرنے کے عزم کا اظہار کیا ہے۔ اِن روائتی جملوں سے افغان امن کو آگے نہیں بڑھایا جا سکتا جب تک کہ افغان حکومت اپنے داخلی مسائل داخلی قوت (طالبان) کے ساتھ مل بیٹھ کر حل (طے) نہیں کر لیتی۔ اِس سلسلے میں پاکستان پر اُنگلیاں اُٹھانے اور تنقید کرنے کے طرزعمل ہی سے اگر رجوع کر لیا جائے تو یہ بات خود افغانستان کے حق میں مفید ہو گی ۔ذہن نشین رہے کہ افغان حکومت کی دعوت پر سیکرٹری خارجہ سہیل محمود افغانستان گئے اور اُن کے ہمراہ دوسرے مشترکہ جائزہ اجلاس کے لئے سینئر افسران پر مشتمل پاکستانی وفد موجود تھا جبکہ مذکورہ اجلاس میں افغانستان کی قیادت نائب وزیر خارجہ نے کی۔ اگرچہ تفصیلات افغان ذرائع ابلاغ کی طرف سے مسلسل آ رہی تھیں تاہم قابل اعتماد و بھروسہ پاکستانی وزارت خارجہ کے ذرائع ہیں جنہوں نے تصدیق کی ہے کہ دونوں فریقین نے جائزہ اجلاسوں کی تعدا بڑھانے اور مختلف ورکنگ گروپس کے مابین باہمی تعاون (گفت و شنید) بڑھانے پر بھی اتفاق کیا ہے۔
اہم ترین بات یہ ہے کہ پاک افغان تعلقات کے حوالے سے قبل ازیں کوششیں ”فریم ورک 2018ئ“ کی صورت دیکھنے میں آئیں تھیں جن میں دونوں ممالک کے اداروں نے اِسی قسم کے عزم کا اظہار کیا تھا جو کہ جامع حکمت عملی کا جز تھا۔ اِسی لائحہ عمل (فریم ورک) کو نئے نام سے متعارف کرواتے ہوئے پانچ ورکنگ گروپس تشکیل دیئے گئے ہیں جو سیاسی و سفارتی تبادلے‘ فوج سے فوج کے تعلقات‘ خفیہ معلومات کا ایک دوسرے سے تبادلے‘ دونوں ممالک کے درمیان معاشی تعاون اور افغان پناہ گزینوں کی وطن واپسی سے متعلق امور شامل ہیں۔ سردست افغانستان حکومت مہاجرین کی واپسی کے لئے کوئی بات کرنا نہیں چاہتی لیکن پاکستان اگر افغان سرحد سے متصل خیمہ بستیاں بنا کر مہاجرین کی وہاں منتقلی کا عمل شروع کرے تو رضاکارانہ واپسی کا عمل جب کبھی بھی شروع ہو‘ اِس کے لئے زیادہ وقت‘ وسائل اور افرادی قوت کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ یہی کام ایران شروع دن سے کر رہا ہے جس نے اپنے ہاں مہاجرین کو پورے ملک میں پھیلنے اور معاشرت کرنے سے روک رکھا ہے۔ پاک افغان تعلقات کا سورج ہمیشہ طلوع ہونے سے قبل ہی ڈوب جاتا ہے لیکن اُمید اور بات چیت کا سلسلہ ختم نہیں کیا جاسکتا کیونکہ پاکستان افغانستان سے جان چھڑانا چاہے بھی تو ایسا ممکن نہیں۔ ماضی میں ایسے ہی گرمجوشی سے شروع کئے گئے اجلاس صدارتی انتخابات کی وجہ سے نہیں ہو پائے تھے اور بعد میں انتخابات کے نتائج سے حسب توقع تنازعات اُٹھے جبکہ تیسری رکاوٹ (محرک) کورونا وبا رہی‘ جس کی وجہ سے بات چیت کا عمل معطل رہا ہے۔
افغانستان کی شکایات قابل غور ہیں جنہوں نے 1: پاکستان کی جانب سے سرحد پر باڑ لگانے۔ 2: سرحدی جھڑپوں۔ 3:پاکستان میں افغان مہاجرین کی مشکلات۔ 4:پاکستان سے براستہ تجارت۔ 5: تجارتی راہداری سے متعلق امور اور 6: پاک افغان تعلقات کے تناظر میں وسیع النبیاد مذاکرات میں امن عمل سے متعلق امور بارے نکات اٹھائے اور طے یہ ہوا کہ اِن سبھی نکات پر متعلقہ ورکنگ گروپ گہرائی سے غور اور بات چیت کرے گا۔ سیاسی سفارتی ورکنگ گروپ میں پاکستانی فریق نے باضابطہ اعلیٰ سطح کے تبادلے کے ذریعے باہمی تعلقات کو مستحکم کرنے‘ دونوں ممالک کے درمیان ادارہ جاتی رابطوں‘ معاشی شراکت میں اضافے اور عوامی سطح پر رو ابط بڑھانے پر زور دیا۔ اقتصادی ورکنگ گروپ کے تحت پاکستان نے دوطرفہ تجارت بڑھانے کے عزم کا اعادہ کیا اور افغانستان پاکستان ٹرانزٹ تجارتی معاہدے پر بات چیت کرنے پر آمادگی کا اظہار کیا‘ جو افغانستان کا دیرینہ مطالبہ ہے اور افغانستان چاہتا ہے کہ بھارت سے اُس کے لئے مال کی آزادانہ نقل و حمل براستہ پاکستان کرنے کی اجازت دی جائے۔ ملٹری ٹو ملٹری اور خفیہ اداروں کی مل کر کاروائیوں بارے ”کوآپریشن ورکنگ گروپ“ کے تحت معلومات کے باقاعدہ تبادلے اور دہشت گردی کے انسداد بارے کوششوں میں قریبی تعاون پر اتفاق ہوا ہے لیکن کیا افغانستان اپنی سرزمین اور وسائل کا پاکستان کے خلاف استعمال روکنے میں سنجیدہ ہے؟ اس حوالے سے موثر اقدامات کی ضرورت ہے۔