پشاور کے اکلوتے دریاکے ساتھ جو کچھ ہوا اس پر بات کرکے وقت ضائع کرنے کی بجائے اگر حکومت لاہور میں راوی ریور منصوبہ کے طرز پر اگر باڑہ ریور منصوبہ شروع کرے تو اس سے نہ صرف ختم ہوتا دریائے باڑہ کو پھر سے حیات بخشی جاسکے گی بلکہ پشاور کے قریب ہی ایک نیا اورخوبصورت ترین شہر بھی آباد کیاجاسکے گا جو اپنی ہیئت کے لحاظ سے حیات آباد اور ریگی ماڈل ٹاﺅن سے کہیں مختلف ،بہتر اور خوبصورت ہوگا دریائے باڑہ پشاور کے درمیان میں سے گزرتاہے کسی زمانے میں اس کاپانی انگریز اپنے ساتھ انگلستان تک لے جایا کرتے تھے افغان حکمرانوں نے پشاور کے تپہ مومند میں شہاب خیل کے مقام پر ایک قطعہ اراضی خرید کر محض دریائے باڑہ کے پانی سے پیداہونے والے چاولوں کے حصول کے لیے مختص کیاہواتھا اورجب رنجیت سنگھ نے پشاور فتح کیاتو اس کے لیے ہرسال دریائے باڑہ کے پانی سے سیراب شدہ زمینوں سے پیداہونے والا چاول بھجوایا جاتارہتاتھا انگریز آئے تودریائے باڑہ کے پانی کو فرحت بخش اورصحت افزاءپا کر پشاور تک زیر زمین پائپ لائن تعمیر کروا کر پانی پشاور تک پہنچانے کاسلسلہ شروع کیا اس دوران انہوں نے شہر کو بچانے کی خاطر دریائے باڑہ کارخ بھی مصنوعی طریقے سے موڑ کر اسے شہر سے باہر کردیا پھر صدر ایوب کے دور میں خیبر ایجنسی میں سپیرہ کے مقام پر ڈیم بناکر باڑہ کاپانی عملاً پشاور کے لیے بند کردیاگیا ۔
جس کے نتیجہ میں تپہ مومند کے درجنوں دیہات اجڑ کررہ گئے وہاں موجود انگوراور لوکاٹ کے باغات سوکھ گئے بہت بعد میں جاکر ان علاقوں کو ورسک ڈیم کینالز کے ذریعہ پانی ملنا شروع ہوا مگر تب تک بہت دیر ہوچکی تھی اس وقت اگر دریائے باڑہ کاجائز ہ لیا جائے تو یہ تیزی سے تجاوزات کی زد میں آتاجارہاہے بہت سے مقامات پر دریا کو عملی طورپر نالے میں تبدیل کردیا گیاہے کوئی والی وارث اورپوچھنے والاہی نہیں کسی بھی صوبائی حکومت نے دریائے باڑہ کے کنارے تجاوزات کانوٹس لینے کی زحمت گوارہ نہیں کی جس کی وجہ سے اب بھی قبضہ مافیا پوری طرح سے سرگرم عمل ہے تاہم اب موجودہ صوبائی حکومت کے پاس موقع آگیاہے کہ وہ پنجاب حکومت کے طرز پر منصوبہ شرو ع کرکے ا س دریاکے کنارے ایک نیا شہر آباد کرسکتی ہے پنجاب حکومت نے دریائے راوی پر نیا لاہور بسانے کامنصوبہ شروع کر دیا ہے چھیالیس کلومیٹر طویل دریاکے منصوبے کی تکمیل سے ایک جدید شہر سامنے آئے گا ہڈیارہ کے قریب دریائے راوی پر چھیالیس کلومیٹر طویل جھیل کی تعمیر اورجدیدترین کمپلیکس ،سڑکوں کانیٹ ورک اور بارہ نئی جدید عظیم الشان رہائشی اور کثیر الجہتی بستیاں اس منصوبے کی نمایاں خصوصیات ہیں جھیل کی تعمیر کے ساتھ ساتھ اس پر چھ واٹر ٹریٹمنٹ پلانٹس تین بیراج شہر ی جنگلات کے منصوبے تین سال میں مکمل کیے جائیں گے منصوبہ کے لیے ایک لاکھ تین ہزار ایکڑ سے زائد رقبہ حاصل کیاجائے گا اسی طرح منصوبہ میں میڈیکل سٹی ،ریذیڈنشل سٹی ،ڈاﺅن ٹاﺅن ،تجارتی مراکز ،اربن فارمز ،نالج سٹی، سپورٹس سٹی او رایکوسٹی بھی شامل ہیں جھیل کی تعمیر سے دریائے راوی میں ڈالا جانے والے استعمال شدہ گھریلو وصنعتی پانی کی ٹریٹمنٹ سے 271ارب لیٹر پانی دستیاب ہوگا ۔
استعمال شدہ پانی کی ٹریٹمنٹ کے پلانٹس سے 2.4ارب لیٹر پانی صاف کرکے 75ہزارایکڑ رقبہ سیراب کیاجاسکے گا منصوبے کی لاگت کاتخمینہ دوہزارارب روپے لگایا گیاہے چھیالیس کلومیٹر طویل اور3280فٹ چوڑی 33فٹ بلند دیوار کی تعمیر سے جھیل لاہورکے شہریوں کے لیے ایک تحفہ ہوگی جبکہ منصوبہ کے لیے 60لاکھ درخت بھی لگائے جائیں گے صاف پانی کے پلانٹ سے لاہور کے شہریوں کو 2045ءتک صاف پانی میسر آسکے گا اس منصوبہ میں حکومت نے نجی شعبہ کاتعاون بھی حاصل کیاہے اب اگر خیبرپختونخوا حکومت پنجاب حکومت سے تفصیلات حاصل کرنے کے لیے قابل اور مخلص افسران پر مشتمل کوئی ٹیم لاہور بھجوائے تو اس سے پشاور میں دریائے باڑہ کے کنارے اسی نوعیت کا شہر تعمیر کرنے کے خواب کو شرمندئہ تعبیر کیاجاسکتا ہے اوریہ بی آرٹی سے کہیں زیادہ اہمیت کامنصوبہ ثابت ہوگا دریائے باڑہ جہاں سے پشاو ر میں داخل ہوتا ہے وہاں سے لے کر اختتام تک یعنی تارو جبہ تک کئی ایک مناسب مقامات ایسے ہیں کہ جہاں حکومت چاہے تو اس کے کنارے مصنوعی جھیل ،واٹر ٹریٹمنٹ پلانٹس اور جدید ترین رہائشی ،سپورٹس اور میڈیکل بستیاں بسا سکتی ہے راوی ریور منصوبے کے مقابلہ میںیہ منصوبہ کہیںچھوٹا اور کم خرچ ہوگا ہمیں امید ہے کہ وزیر اعلیٰ محمود خان اپنے فعال چیف سیکرٹری ڈاکٹر کاظم نیاز کے ذریعہ اس سلسلہ میں جلد ہی عملی پیشرفت شروع کریں گے اس سلسلہ میں ہمیں یہ بھی یقین ہے کہ ان کو وزیر اعظم عمران خان کی بھرپور آشیرباد بھی حاصل ہوگی کیونکہ راوی ریور منصوبہ کاافتتاح انہوں نے کیا اور اس پر خوشی کااظہار کرتے ہوئے انہوں نے اسے لاہور کے لیے بہت بڑا تحفہ قرارد یا یقینا وہ پشاور کو بھی اس قسم کاتحفہ دینے کے معاملے میں صوبائی حکومت کی بھرپور سرپرستی کریں گے ۔