اقوامِ متحدہ کی حالیہ رپورٹ میں کہاگیاہے کہ اس وقت دنیا کی 55 فیصد آبادی شہروں میں رہائش پذیر ہے جبکہ 1960میں دنیا کی صرف 34 فیصد آبادی شہروں میں قیام پذیر تھی۔2050 تک شہروں میں رہنے والی آبادی کا تناسب 70 فیصد تک بڑھ جائے گا۔ ہالینڈ کے ماہرِ حیاتیات مینو شلتوزین نے انکشاف کیا ہے کہ شہروں کی تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی جنگلی حیات پر منفی اثرات مرتب کر رہی ہے۔انسانی آبادی بڑھنے سے ان کی رہائش کی جگہوں کو بھی نقصان پہنچا ہے۔شہروں میں بڑھتی ہوئی آبادی سے بہت سے جانوروں نے اپنے رجحانات اور چال چلن کو شہروں کے مطابق ڈھال لیا ہے۔ بطور انسان ہم اس موڑ پر پہنچ رہے ہیں
جہاں ہم صرف وہی نباتات اور جنگلی حیات دیکھ پائیں گے جو صرف شہروں تک ہی محدود ہوں گے کیونکہ جنگلات کی کمی کے نتیجہ میں جنگلی حیات کی بہت سی اقسام ناپید ہو جانے کا خدشہ ہے۔انہوں نے خبردار کیا کہ ہمیں یہ نہیں سوچنا چاہیے کہ جانور اپنے رہنے کا انتظام خود ہی کرلیں گے بلکہ ہمیں بڑھتے اور تیزی سے بدلتے ہوئے شہری نظام میں جانوروں اور چرند پرند کیلئے جگہ بنانا ہو گی تاکہ ان کی نسلوں کو بھی تحفظ فراہم کیا جا سکے۔انسانی آبادی بڑھنے کے ساتھ دیہات سے لوگوں کی شہروں کی طرف نقل مکانی میں بھی غیر معمولی اضافہ ہورہا ہے اس کی بنیادی وجہ دیہات میں تعلیم، صحت، روزگار اور دیگر بنیادی سہولتوں کا فقدان ہے۔دنیا میں انسانی آبادی 2.6فیصد سالانہ کی شرح سے بڑھ رہی ہے۔
جبکہ زمین عمارتوں، سڑکوں، کارخانوں کی تعمیر، سیم و تھوراور دریاؤں کے کٹاؤ کی وجہ سے تنگ ہوتی جارہی ہے۔رہائش کی ضروریات پوری کرنے کے لئے انسان نے جنگلات کی بے دریغ کٹائی جاری رکھی ہے جس کی وجہ سے قدرتی ماحول کو نقصان پہنچ رہا ہے۔جنگلی حیات پر عرصہ حیات روز بروز تنگ ہوتا جارہا ہے درختوں کی کٹائی سے موسمی تغیرات نے بھی انسانوں کے لئے خطرے کی گھنٹی بجادی ہے آلودگی بڑھنے سے ایک طرف اوزوں کو نقصان پہنچ رہا ہے تو دوسری جانب گلیشیر پھٹنے سے سیلاب آنے کے خطرات بڑھتے جارہے ہیں۔
ترقی یافتہ ممالک نے آبادی کو وسائل کے اندر محدود رکھنے کے لئے جامع حکمت عملی اختیار کی ہے۔ تاہم ایشیاء اور افریقہ نے آبادی کو کنٹرول کرنے کے لئے اب تک مناسب اقدامات نہیں کئے جس کی وجہ سے ترقی پذیر ممالک کے لئے آبادی میں بے تحاشا اضافہ سنگین مسئلہ بنتا جا رہا ہے۔تھامس مالتھس کہتے ہیں کہ جب زمین پر انسانوں کا بوجھ بڑھتا ہے تو قدرت کی طرف سے انسانی بوجھ کو متوازن رکھنے کا اہتمام ہوتا ہے جنگیں چھڑ جاتی ہیں، زلزلے آتے ہیں طوفان اور سیلاب سے تباہی آتی ہے لاکھوں کروڑوں لوگ مرجاتے ہیں اور زمین پھر انسانوں کا بوجھ اٹھانے کے قابل ہوتی ہے۔1971میں موجودہ پاکستان کی آبادی پانچ کروڑ تھی، 75فیصد آبادی دیہات اور25فیصد شہروں میں رہتی تھی۔
پچاس سال بعد پاکستان کی آبادی 400فیصد کے حساب سے بڑھتی ہوئی 22کروڑ ہوگئی آج دیہی اور شہری آبادی کی شرح پچاس پچاس فیصد ہوگئی ہے۔ پچاس لاکھ کی آبادی کا شہر کراچی آج دو کروڑ انسانوں کا بوجھ اٹھائے ہوئے ہے۔حیدر آباد، کوئٹہ، ملتان، فیصل آباد، راولپنڈی، پشاور، مردان، نوشہرہ، ہری پور اوردیگر شہروں کی آبادی بھی پچاس سال پہلے کے مقابلے میں تگنی ہوگئی ہے۔ اگر آبادی میں اضافے کی یہی شرح برقرار رہی تو آئندہ تیس سالوں میں پاکستان کی آبادی دوگنی ہوجائے گی زرخیززرعی زمینوں پر کنکریٹ کے جنگل اگ آئیں گے وسائل گھٹنے اور مسائل بڑھنے کی وجہ سے زندگی مشکل سے مشکل تر ہوسکتی ہے خوراک اور صاف پانی کے علاوہ تعلیم، صحت اور روزگار کے مسائل سنگین تر ہوسکتے ہیں
شہروں پر آبادی کا بوجھ کم کرنے کے لئے دیہی علاقوں میں صحت، تعلیم اور روزگار کے مواقع پیدا کرنے کی منصوبہ بندی ناگزیر ہے۔ساتھ ساتھ آبادی میں تشویش ناک اضافے کی شرح کو کم کرنے کے لئے علمائے کرام، دانشوروں اور مختلف مکاتب فکر کے نمائندہ افراد کے ساتھ مشاورت کے بعد قومی حکمت عملی مرتب کرنے کی ضرورت ہے۔اگر ہم نے قدرتی ماحول کو اپنی مجرمانہ غفلت، کوتاہی اور لاپراہی سے نقصان پہنچایا تو کرہ ارض کا توازن برقرار رکھنے کے لئے قدرت کا نظام حرکت میں آئے گا اور قدرتی آفات کو روکنا پھر ہمارے بس میں نہیں ہوگا۔