ٹیلی فون اور انٹرنیٹ پر منحصر مواصلاتی رابطوں کے نگران وفاقی ادارے ’پاکستان ٹیلی کیمونیکشن اتھارٹی (پی ٹی اے)‘ نے رواں ماہ کے آغاز (یکم ستمبر دوہزار بیس) کی شام بذریعہ سوشل میڈیا (ٹوئیٹر) اعلان کیا کہ اُس نے 5 ایسی ویب سائٹ تک عوام کی رسائی معطل کر دی ہے‘ جن کا استعمال نوجوان لڑکے لڑکیاں انجانے لوگوں کے ساتھ سماجی تعلقات بڑھانے کیلئے کر رہے تھے۔ بات یہ ہے کہ صرف پانچ مقبول ترین ایپلی کیشنز پر پابندی عائد کی گئی ہے جبکہ دیگر درجنوں وسائل موجود ہیں اور یہ بات بھی ذہن نشین رہے کہ جن ایپلی کیشنز پر پابندی عائد کی گئی ہے اُن تک بھی رسائی ایک خاص طریقے جسے ’ورچوئل پرائیویٹ نیٹ ورک (VPN)‘ کہا جاتا ہے کے ذریعے رسائی ممکن ہے اور اِس طریقے کا دانستہ طور پر یہاں کھول کر بیان نہیں کیا جا رہا۔ انٹرنیٹ کے ذریعے اجنبیوں کے درمیان رابطہ کاری کوئی مسئلہ نہیں بلکہ اِس کے امکانات لامحدود ہیں۔ قومی فیصلہ سازوں اور متعلقہ اداروں کو سمجھنا ہو گا کہ انٹرنیٹ ایک ایسا ذریعہ ہے جس پر پابندی بھی ممکن نہیں لیکن اِس کے بارے میں خاطرخواہ معلومات کی فراہمی (تربیت) اور شروع دن سے کڑی نگرانی کی جائے تو خرابیوں کو متعارف ہونے اور پھیلنے سے پہلے روکنا ممکن ہے۔مفکر علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ بہت پہلے اِس نکتے کی جانب توجہ دلا چکے ہیں۔
کہ ”اپنی ملت پر قیاس اقوام ِمغرب سے نہ کر …… خاص ہے ترکیب میں قوم رسول ہاشمی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)۔“ سمجھ لینا چاہئے اور چاہیں تو تسلیم کرنے سے پہلے خوب تحقیق بھی کر لیں لیکن نتیجہ یہی سامنے آئے گا کہ ”اسلامی تشخص و ثقافت اور پاکستان دو الگ الگ موضوعات نہیں بلکہ ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں“ اور یہ بات حب الوطنی کے ساتھ نئی نسل کی گھٹی میں شامل کرنے کیلئے توجہ دینی ہوگی۔ نوجوان لڑکے لڑکیاں آپس میں میل جول بڑھائیں‘ ایک دوسرے سے ملاقاتیں کریں اور اِس بات پر فخر بھی محسوس کریں کہ اُنہوں نے رواں ماہ کتنے اجنبیوں سے کتنی مرتبہ ملاقاتیں کیں۔ کن کن سے رابطوں میں ہیں اور اُن کے تعلقات کی نوعیت کیا ہے‘ ایک ایسا طوفان بدتمیزی و بدتہذیبی ہے جس کی راہ روکنا انتہائی ضروری ہے قبل ازیں کہ یہ سیلاب شہروں کی طرح دیہی علاقوں کو بھی اپنے ساتھ بہا لے جائے۔ پاکستان کے مبینہ روشن خیالوں تک یہ بات پہنچنی چاہئے اور حکومتی فیصلہ سازوں کو دل و دماغ کھول کر اِس حقیقت کی تہہ میں چھپے ’نظام عصمت و عفت‘ کی اہمیت پر غور کرنا چاہئے کہ انسانی معاشرے میں تعظیم اور حدود کی خاص اہمیت ہے اور کسی بھی شخص کو دوسرے کی تحریم میں قدم رکھنے کی اجازت نہیں دی گئی۔ پاکستان میں اِس بات کو اجتماعی سطح پر کبھی بھی قبول نہیں کیا گیا کہ نوجوان لڑکے لڑکیاں ایک دوسرے سے اِس انداز میں میل جول بڑھائیں۔اسلام قدم قدم پر رہنمائی کرتا ہے۔
آپسی بول چال یا دوستیوں میں اُن مقررہ حدود کو پار کرنے کی ممانعت ہے جو اسلام نے مقرر کر رکھی ہیں اور صرف احادیث سے نہیں بلکہ آیات قرآنی سے ثابت و جواز رکھتی ہیں۔ علاوہ ازیں پاکستان کے آئین کی رو سے بھی ایسی غیرمحتاط و غیرشرعی معاشرت ”جرم“ ہے تو یہ اِس جرم کے جملہ اسباب و محرکات کا تدارک ہونا چاہئے۔ وہ سبھی ذرائع جو ملک میں فحاشی پھیلا رہے ہیں اور ایسی سرگرمیوں کی سرپرستی کر رہے ہیں اُن میں ٹیلی ویژن کے ڈرامے اور فلمیں بھی کلیدی کردار ادا کر رہے ہیں‘ جن کے بارے میں الگ سے غور ہونا چاہئے کہ تخریب صرف سوشل میڈیا نہیں بلکہ اِس کی جانب رغبت و توجہ دلانے والے دیگر محرکات و اسباب کا بھی قلع قمع ہونا چاہئے۔ جو معاشرہ اپنی سوچ اور فکروعمل میں پاک و پاکیزہ نہیں رہے گا‘ اُس سے نمو اور وجود پانے والا مستقبل بھی اندیشوں‘ بدگمانیوں اور خرابیوں کا مجموعہ رہے گا۔ ایسی ترقی‘ ثقافت اور روشن خیالی پاکستان کے لئے سودمند نہیں جس میں شرعی پردے اور معاشرت کے بنیادی اصولوں کی نفی ہوتی ہو۔ سوچئے ابھی بھی دیر نہیں ہوئی۔