درس و تدریس کا مستقبل

 برطانیہ کی ’ایمپریل کالج‘ کی زیرنگرانی جون کے دوران جاری کی گئی ایک تحقیق میں اِس خطرے اور خدشے کا اظہار کیا گیا تھا کہ پاکستان میں جس ’سماجی بے احتیاطی‘ کا مظاہرہ کیا جارہا ہے اُسے مدنظر رکھتے ہوئے کورونا وبا کے متاثرین کی تعداد 22 لاکھ سے تجاوز کر جائے گی لیکن ایسے تمام جائزے اور طبی تحقیق غلط ثابت ہوئی اور پاکستان میں کورونا متاثرین کی مجموعی تعداد (3 ستمبر صبح 10 بجے تک) 2 لاکھ 97 ہزار جبکہ اِن میں 2 لاکھ 81 ہزار صحت یاب ہو چکے ہیں اور کورونا سے پورے ملک میں ہونے والی اموات چھ ہزار چارسو سے کم ہیں۔ کسی ایسی پراسرار وبا سے پیدا ہونے والی ہنگامی صورتحال سے نمٹنے میں حکومتی کامیابی قابل ذکر ہے‘ جس نے دنیا بھر میں تباہی پھیلا رکھی ہے۔ اِس سلسلے میں حکومت کے اپنے اندازے بھی غلط ثابت ہوئے ہیں۔

 

نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشنز سنٹر کے نگران اور منصوبہ بندی کے وفاقی وزیر اسد عمر کو جب کورونا وبا سے متعلق حکمت عملی مرتب کرنے اور اِس پر عمل درآمد کی ذمہ داری سونپی گئی تو اُنہوں نے (جولائی کے دوران دیئے گئے) اپنے بیان میں اِس خدشے کا اظہار کیا تھا کہ پاکستان میں کورونا وبا سے متاثرین کی تعداد کم سے کم 12 لاکھ ہو سکتی ہے لیکن وزیراعظم ایسی کسی بھی تحقیق سے متاثر نہیں ہوئے اور انہوں نے بتدریج لاک ڈاو¿ن ختم کرنے کا سلسلہ جاری رکھا جو خوش قسمتی سے نہایت ہی نپا تلا اور درست فیصلہ ثابت ہوا حالانکہ اِس بات کا امکان موجود تھا کہ بھارت کی طرح ہر دن ہزاروں ہلاکتیں اور متاثرین کی تعداد میں بے تحاشا اضافہ ہو سکتا تھا اور حزب اختلاف ایسے کسی موقع کی راہ دیکھتی رہ گئی۔ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان میں جو کچھ بھی اچھا ہو رہا ہے وہ نیت کا ثمر ہے اور بنیادی نکتہ یہ ہے کہ اگر حکمرانوں کی نیت اچھی ہو تو عمل کے فوائد میں اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے

 

لیکن کیا سب کچھ ’نیت‘ ہی کے حوالے کر دینا چاہئے؟حکومت پر دباو¿ ہے کہ پاکستان میں کورونا موجود ہے اور صورتحال معمول پر نہیں آئی تو جہاں دیگر سرگرمیاں بحال کر دی گئی ہیں وہیں تعلیمی ادارے بھی کھول دینے چاہئیں مسئلہ یہ ہے کہ دیگر سرگرمیوں میں احتیاط نہ کرنے سے تو وبا نہیں پھیلی لیکن اگر تعلیمی اداروں میں بچے متاثر ہوئے تو زیادہ بڑا دھچکا ہوگا۔ کیونکہ یہاں پر احتیاطی تدابیر پر عملدرآمد میں جس قدر مشکل کا سامنا ہو سکتا ہے وہ دیگر شعبہ ہائے زندگی میں شاید ہی کبھی ہو اس لئے تعلیمی اداروں میں درس و تدریس کا سلسلہ شروع کرنے کے حوالے سے جس قدر احتیاط کی جائے بہتر ہے‘ ایک نظریہ یہ بھی ہے کہ کورونا وبا کے کم متاثرین کی تعداد کا تعلق ٹیسٹنگ سہولت میں کمی ہے اور اب صرف اُنہی افراد کے ٹیسٹ مفت کئے جاتے ہیں جن میں مرض کی علامات موجود ہوں اور یہ رائے بھی عام ہے کورونا سے متاثر ہونے والا جو شخص بھی ہسپتال جاتا ہے

 

اُس کا صحت یاب ہونا ضروری نہیں ہوتا اور اکثر کی موت ہو جاتی ہے۔ اِس لئے بہتر یہی ہے کہ مرض کی علامات ظاہر ہونے کے بعد گھروں ہی میں الگ تھلک رہا جائے اور اِس معاملے کی حکومتی اداروں کو کانوں کان خبر نہ دی جائے۔ کیا واقعی ایسا ہی ہے کہ 1: حکومت کورونا وبا سے متعلق اعدادوشمار چھپا رہی ہے تاکہ خوف و ہراس نہ پھیلے؟ اور 2: معاشی سرگرمیوں کو بحال رکھنے کے لئے عوام کی جان کو خطرے میں ڈال دیا گیا ہے؟ ایسے شواہد اور دستاویزی ثبوت موجود نہیں جنہیں مدنظر رکھتے ہوئے اِن سازشی (منفی) نظریات کی تصدیق ہو سکے لیکن بہرحال جو ایک بات طے شدہ ہے وہ یہ ہے کہ کورونا ٹیسٹنگ کم کر دی گئی ہے اور یہی وجہ ہے کہ نئے کیسز کی تعداد ہزاروں سے کم ہو کر سینکڑوں تک جا پہنچے ہیں۔ اعدادوشمار کسی تیز دھار آلے کی صورت ہوتے ہیں اور یہ بذات خود اچھے یا بُرے نہیں ہوتے لیکن اِن کی وجہ سے اچھے یا بُرے نتائج پیدا ہو سکتے ہیں۔

 

کورونا سے احتیاط کا سلسلہ جاری رہنا چاہئے۔ درس و تدریس کے معطل سلسلے کو مرحلہ وار بحال کرنے کے لئے احتیاطی تدابیر پہلے ہی سے وضع کر لی گئی ہیں جن پر عمل درآمد بالکل اُسی طرح ناممکن ہے جس طرح تعلیمی اداروں کا فیسوں سے متعلق قواعد اور حکومتی احکامات کو ماننے سے انکار ہے۔ ایسی صورتحال میں وقت‘ نصاب اور مالی وسائل کی زیادہ سے زیادہ سرمایہ کاری ’آن لائن تعلیم‘ میں ہونی چاہئے کیونکہ صرف کورونا وبا کی ہنگامی صورتحال ہی نہیں بلکہ یہ کورونا وبا کے بعد (Post Covid19) بھی ضروری ہوگی اور درحقیقت تعلیم کا مستقبل بھی ’آن لائن‘ ہی ہے‘ جسے مدنظر رکھتے ہوئے پاکستان اِس اسلوب کو جس قدر جلد اختیار کرے گا‘ اُتنا ہی اچھا (مفید) رہے گا۔