باشندگان ٹھنڈیانی کی فریاد

ہزارہ بے شمارہ خوبصورت ترین وادیوں،جھیلوں اورپہاڑی مقامات پرمشتمل علاقہ ہے جس کو قدرت نے فیاضی کے ساتھ حسن سے نوازاہے ایبٹ آباد سے نتھیاگلی کی طرف جائیں تو راستے میں ایک راستہ ٹھنڈیانی کی طرف مڑتاہے ٹھنڈیانی ایک بہت ہی خوبصورت سیاحتی مقام ہے گرمی ہوکرسردی ہرسال ہزاروں سیاح اس کے حسن سے لطف اندوز ہونے کے لیے جاتے ہیں تاہم اکتوبر 2005ءکے قیامت خیز زلزلے سے پہلے اس علاقہ تک رسائی نسبتاً آسان ہوا کرتی تھی کیونکہ سڑک کی حالت کچھ زیادہ خراب نہیں تھی تاہم زلزلے کے دوران اس پورے علاقہ کو بھی زبردست نقصان پہنچا اور انفراسٹرکچر تباہی سے دوچارہوا بدقسمتی سے اس دوران بحالی کے نام پر کروڑ ں اربوں روپے جاری ہوئے مگر ٹھنڈیانی روڈ کی قسمت نہ بدل سکی ٹھنڈیانی سے مظفر آباد روڈ 1990 کی دہائی میں تعمیر کی گئی جبکہ 8اکتوبر 2005میں آ نے والے قیامت خیز زلزلہ نے اس کو تباہ کر کے کھنڈرات میں تبدیل کر دیا۔ لیکن اب 15 سال کا عرصہ گزرنے کے باوجود اس سڑک کی تعمیر و مرمت نہ ہونے کی وجہ سے یہ روڈ مزید خراب ہو گئی ہے

 

اور اس پر سفر کرنا انتہائی دشوار بلکہ بعض مقامات پر تو خطرناک ہوچکاہے مقامی آبادی کے مطابق اس سڑک پریومیہ پانچ سو سے ایک ہزارتک گاڑیاں سفر کرتی ہیں ٹھنڈیانی کے آس پاس درجنوں دیہات ہیں یہ علاقہ جو تین یونین کونسلوں اور ڈیڑھ لاکھ تک کی آبادی پرمشتمل ہے اس وقت عملاً کٹاہوا دکھائی دیتاہے پشاورسے ایبٹ آباد تک جانا آسان اورسستا ہے مگر ایبٹ آباد سے ٹھنڈیانی آمد ورفت انتہائی مشکل اورمہنگی ہوچکی ہے مقامی آبادی نے ہمارے صحافی دوست عارف قریشی کے توسط سے مطالبہ کیاہے کہ ٹھنڈیانی ٹو مظفر آباد (پلہیر) روڈ کی فوری طور پر مرمت کی جائے ان کے مطالبہ میں اس لیے بھی وزن ہے کہ تقریبا 40 کلو میٹر یہ سڑک گلیات میں سیاحت کے فروغ میں ریڑھ کی ہڈی کا کردار ادا کرتی ہے لہذاسیاحت کی فروغ سیاحوں کی سہولت کیلئے ہی اسے فوری طور پر نئے سرے سے تعمیر جائے۔

 

گلیات کی سیاحت کو فروغ دینے کے لےے اور سیاحوں کو سہولیات فراہم کرنے کے لےے اس سڑک کی تعمیر و مرمت انتہائی ضروری ہے15سال کا عرصہ گزرنے کے باوجود تا حال اس پر کسی نے کوئی توجہ نہیں دی مقامی رہائشیوں کاکہناہے کہ گزشتہ 13 سالوں کے دوران پہلے مسلم لیگ ن نے علاقہ کی نمائندگی کی اس کے بعد تحریک انصاف کے ڈاکٹر اظہر جدون اور اب ممبر صوبائی اسمبلی نذیر عباسی علاقہ کی نمائندگی کر رہے ہیں لیکن اس سڑک پر ان تما م لوگوں کے سفر کرنے کے باوجود اس پر کوئی توجہ نہیں دی جا رہی ہے

 

جبکہ یہ سڑک قومی سرمایہ ہے اور محکمہ سیاحت اور خیبر پختون خوا کی صوبائی حکومت کے لئے آمدنی کا معقول ذریعہ بن سکتی ہے۔مقامی آباد ی کاشکوہ یقینا بجا ہے ایک ایسی حکومت کے دوران کہ جس نے سیاحت کے فروغ کو روزاول سے اپنی ترجیحات میں شامل کیے رکھاہے ٹھنڈیانی روڈ سے چشم پوشی افسوسناک امر ہی کہلائی جاسکتی ہے اگردیکھاجائے تویہ سڑک ٹھنڈیانی کے علاقہ گلیات کے وسط میں سے گزرنے اور اپنی لازوال خوبصورتی کی وجہ سے سیاحت کے فروغ میں اہم اور ریڑھ کی ہڈی کا کردار اد اکر رہی ہے مگر زلزلے کی وجہ سے تباہی کے بعد سے اب صورتحال یہ ہے کہ کسی وقت میں جو فاصلہ ڈیڑھ گھنٹے میں طے ہوا کرتاتھا سڑک کی ناگفتہ بہ حالت کی وجہ سے وہی فاصلہ اب تین سے ساڑھے تین گھنٹے میں طے ہونے لگاہے اورجب کبھی بارش برستی ہے توپھر آمدورفت اوربھی مشکل ہوجاتی ہے

 

اورایک سیاحت ہی کیوں مقامی آبادی کو جن مشکلات کاسامناہے ان کے پیش نظر کیا حکومت کا فرض نہیں بنتا کہ پندرہ سال کی غفلت شعاری کاسلسلہ اب تو رو ک دے ماضی کی حکومتوں نے تو جوکیا سو کیا اب تبدیلی کے دعویدار بھی کچھ نہ کرسکے تو پھرفرق کے دعوے کیونکر کرسکے گی مقامی آبادی نے وزیر اعلیٰ خیبر پختون خواہ محمود خان ، سپیکر صوبائی ا سمبلی مشتاق احمد غنی ،ممبر قومی اسمبلی مرتضیٰ جاوید عباسی ، ممبر صوبائی اسمبلی نذیر عباسی ،محکمہ سیاحت کے سیکرٹری اور متعلقہ دےگر افسران بالا سے فوری توجہ کی جو اپیل کی ہے وہ یقینا قابل غور ہے اور اگر اب اس معاملہ میں محکمہ سیاحت ہی آگے آکر کردار ادا کرے تو کچھ مضائقہ نہیں کیونکہ اس سڑک سے سیاحت کا مستقبل وابستہ ہے اس لیے سیاحوںکی سہولت اور سیاحت کے فروغ کے لئے اس پر بھر پور توجہ دینے کی ضرورت ہے

 

اوراس وقت محکمہ سیاحت نئے نئے سیاحتی مقامات دریافت اور اسے لوگوں کے لیے کھولنے کے لیے مصروف عمل ہے اس لیے اسے پہلے سے لوگوں کی توجہ کامرکز بنے ہوئے سیاحتی مقامات کی صورت حال کی طر ف بھی توجہ دینی چاہئے بتایا جاتاکہ صوبائی ورکنگ ترقیاتی پارٹی نے اس سلسلہ میں کچھ پیشرفت کی ہے اس کے باوجود ان سطور کی وساطت سے حکام سے گزارش ہے کہ اس کی تعمیر و مرمت کا کام شروع کرنے کیلئے فزیبلٹی رپورٹ اور پی سی ون تیار کر کے فنڈز جاری کےے جائیں ،کیونکہ گزشتہ پندرہ سالوں سے لوگ اپنی مدد آپ کے تحت گاڑیاں گزارنے کا راستہ مشکل کے ساتھ بنا رہے ہیں اوراب ان کی قوت برداشت ختم ہوتی جارہی ہے سیاحت کی فروغ کےلئے سرگرم حکومت سے یہی امید رکھی جاسکتی ہے کہ وہ جلد یہاں کے لوگوں کو خوشخبر ی سنائے گی ۔