اِنسان اور اِنسانی حقوق دونوں امتیازات اور تعصبات سے بالاتر ہونے چاہئیں ¾اِنسانی معاشرے کی خصوصیت یہ ہونی چاہئے کہ اِس میں اُن طبقات کی تکالیف کو مدنظر رکھا جائے جو اپنے منہ میں زبان ہونے کے باوجود اپنی آواز فیصلہ سازوں تک پہنچانے کی سکت نہیں رکھتے۔ یہی سبب ہے کہ اِس اہم ضرورت کی جانب توجہ دلانے کے لئے عالمی سطح پر کئی ایسے ادارے اور تنظیمیں موجود ہیں جو ممالک کو اُن کے ہاںانسانی حقوق کی صورتحال سے متعلق وقتاً فوقتاً آگاہ کرتی رہتی ہیں اور دی گئی تجاویز یا مسائل کی نشاندہی کے حوالے سے اُن کی ذمہ داریوں بارے یاد دہانی کا سلسلہ بھی جاری رکھتی ہیں۔ بہتر یہی ہے کہ غیروں کی جانب سے توجہ دلانے کی بجائے اپنوں کے بارے میں اپنے ہی دردمندی کا مظاہرہ کریں۔
رواں ماہ قیدیوں سے متعلق اصلاحات کے حوالے سے دو عنوانات کے تحت جس ایک موضوع کا احاطہ کرنے کی کوشش کی گئی‘ وہ معمولی جرائم میں ملوث خواتین اور کم عمر قیدی بچوں سے متعلق تھا۔ قابل ذکر اور خوش آئند ہے کہ وفاقی حکومت ایسے تمام قیدیوں کو ’راحت کا احساس دلانا چاہتی ہے جو عرصہ¿ دراز سے فراموش ہیں اور یہ اَمر بھی لائق توجہ ہے کہ صرف خواتین اور کم عمر بچے ہی نہیں بلکہ دیگر ایسے قیدی بھی پاکستان ہی کا حصہ ہیں اور اِنہیں جلدیا بدیر کسی بھی دوسرے پاکستانی کی معاشرے کا فعال رکن بن کر اپنا کردار وہیں سے ادا کرنا ہے‘
جہاں سے یہ معطل ہو گیا تھا تو کیا ایسا نہیں ہونا چاہئے کہ ہر قیدیوں کو حالات اور پرانے نظام کے حوالے رہنے دیا جائے اور جس غلط طرزعمل کی وجہ سے انہیں جیل دیکھنا پڑی اُس انتہائی اقدام کی جانب مائل یا اُکسانے جیسے جذبات کی اصلاح نہ ہو؟ قیدیوں کی شخصیت کو تربیت کے ذریعے اِس قدر مضبوط بنایا جا سکتا ہے کہ وہ ایک مرتبہ پھر اپنے اچھے اور بُرے کی تمیز کر سکیں اور کسی سے انتقام یا کسی کو سبق سکھانے کی بجائے ’احترام انسانیت‘ جیسے اپنی خلقت کے مقصد کو سمجھ سکیں۔ لب لباب یہ ہے کہ اگر جیل خانہ جات اصلاحی مراکز ہونے کے ساتھ قیدیوں کے بنیادی اِنسانی حقوق کی ادائیگی نہیں کر رہے تو اِس کے سبب جرائم کا خاتمہ ممکن نہیں ہو سکے گا۔ وفاقی فیصلہ ساز اگر متوجہ ہیں اور وہ اصلاحات چاہتے ہی ہیں تو قیدیوں سے متعلق جملہ امور اور بالخصوص پرانے قوانین و قواعد پر نظرثانی کرنے کی ضرورت ہے۔
جیل خانہ جات کی آبادی اور اِن میں قیام و طعام کی سہولیات میں اضافہ بھی اپنی جگہ اہم و ضروری ہے۔ قیدیوں کے لئے آسائشوں کا نہیں بلکہ اُن کے لئے بنیادی سہولیات کی فراہمی کا مطالبہ کیا جا رہا ہے‘ جو مختلف وجوہات کی بناء پر معطل ہیں۔ مثال کے طور قیدخانوں میں جلدی سونے اور جلدی اُٹھنے کے اوقات اور معمولات سمیت اکثر قواعد برطانوی راج کے دوران بنائے گئے تھے اور اِن پر آج بھی عمل درآمد ہو رہا ہے جبکہ قیدخانوں کی آبادی وہاں کی گنجائش سے زیادہ ہے اور ایسی بیرکیں بھی ہوتی ہیں جہاں کے نصف قیدی رات کے پہلے اور باقی نصف قیدی رات کے آخری پہر میں اپنی نیند پوری کرتے ہیں۔ تصور کیجئے کہ جہاں قیدیوں کے لئے کمر سیدھی کر کے لیٹنا تک ممکن نہ ہو اور وہ نصف شب کھڑے ہو کر گزارتے ہوں کیونکہ جگہ کی کمی ہے تو ایسے ماحول میں ’جیل خانہ اصلاحات‘ جس قدر اشد و ضروری ہو جاتی ہیں۔
ہری پور کی سنٹرل جیل خیبرپختونخوا میں دہشت گردی و قتل اور دیگر خطرناک جرائم کی سزائیں بھگتنے والوں کا مرکز ہے اور اِس ’ہائی سیکورٹی پریزن‘ میں دیگر جیلوں کے مقابلے زیادہ سخت نظم و ضبط لاگو ہے۔ قیدیوں کو ٹیلی ویژن دیکھنے کی اجازت ہے لیکن صرف پاکستان ٹیلی ویژن کی نشریات بذریعہ ’ٹھنڈیانی بوسٹر‘ دکھائی جاتی ہیں۔ کورونا وبا ءکے باعث حکومت نے ’ٹیلی سکول‘ نامی چینل شروع کیا‘ جس کی نشریات سارا دن شام چھ بجے تک جاری رہتی ہیں اور چونکہ تعلیم کے عمل کو فاصلاتی طریقوں سے آگے بڑھانے جیسی ضرورت بھی درپیش ہے اِس لئے ’ٹھنڈیانی بوسٹر‘ سے سارا دن ’ٹیلی سکول‘ نشر ہوتا ہے۔
اصولاً شام چھ بجے کے بعد جبکہ ’ٹیلی سکول‘کی نشریات ختم ہو جاتی ہیں تو مذکورہ بوسٹر سے چینل تبدیل کرتے ہوئے ’پی ٹی وی نیوز‘ یا ’پی ٹی وی ہوم‘ کے چینل نشر ہونے چاہئیں لیکن ایسا نہیں ہوتا۔ اُمید ہے کہ وزیراعظم عمران خان‘ وفاقی وزیر برائے اطلاعات و نشریات سینیٹر شبلی فراز اُور وفاقی وزیر تعلیم شفقت محمود کے علاو¿ہ وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا محمود خان اِس جانب توجہ دیں گے-سوشل میڈیا کی وساطت سے تاریخ کے ایک ایسے حکمران کی تمثیل بھی نظر سے گزری ہے جنہوں نے ایک اجلاس میں مختلف سرکاری محکموں کے لئے مالی وسائل مختص کرتے ہوئے پرائمری سطح کے تعلیمی اداروں اور جیل خانہ جات کے بجٹ کی بابت سوال کیا تو اُنہیں بتایا گیا کہ جیل خانوں کے مقابلے بنیادی تعلیم پر قومی خزانے سے زیادہ پیسے خرچ کئے جاتے ہیں۔
یہ سنتے ہی اُنہوں نے جیل خانوں کے بجٹ میں کئی گنا اضافہ کر دیا اور جب ذرائع ابلاغ کے نمائندوں نے اُن سے ایسا کرنے کی وجہ پوچھی تو اُن کا جواب تھا کہ مستقبل کے بارے میں بھی سوچنا چاہئے۔ ماضی کے حکمرانوں کی طرح حکومت سے الگ ہونے کے بعد مجھے کسی کینڈرگارڈن سکول کی نہیں بلکہ جیل کی ہوا کھانا پڑ سکتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ جیل خانہ جات کے بجٹ میں اضافہ نے موجودہ قیدیوں کے بارے میں سوچتے ہوئے نہیں بلکہ اپنا مستقبل مدنظر رکھتے ہوئے کیا ہے۔“ بس یہی نکتہ ہمارے سیاسی اور افسرشاہی پر مشتمل غیرمنتخب فیصلہ سازوں کو پیش نظر رکھنا چاہئے کہ دوسروں سے زیادہ اپنے مستقبل کو آرام دہ بنانے پر غور کریں۔