خیبرپختونخوا حکومت نے بجٹ سفارشات پر عمل درآمد کرتے ہوئے تجارت اور ٹیکس کلچر کے فروغ کیلئے خدمات کی فراہمی سے وابستہ 29 شعبہ جات پر سیلز ٹیکس کی شرح میں نمایاں کمی کا اعلامیہ جاری کردیاہے۔خیبر پختونخوا ریونیو اتھارٹی کے مطابق ٹیکس کی شرح میں کمی کا اطلاق تعمیرات اور اس سے متعلقہ دیگر ضمنی شعبہ جات، چھوٹے اور درمیانے درجے کے ہوٹلوں، ریسٹورنٹس، سرائے ¾ مہمان خانوں، ورکشاپس،کاروبار میں معاونت دینے والے اداروں، لیبارٹریوں، بیوٹی پارلرز، افرادی قوت فراہم کرنے والی کمپنیوں اور دیگر خدمات کی فراہمی سے وابستہ اداروں اور افراد پر ہوگا۔چھوٹے اور درمیانے درجے کے ہوٹل، ریسٹورنٹ، سرائے اور مہمان خانوں پر سیلز ٹیکس کی شرح 15 فیصد سے کم کرکے 8 فیصد کر دی گئی۔
ہوائی اڈے، ڈرائی پورٹس، کنٹینر ٹرمینل اور گودام وغیرہ سے وابستہ شعبوں پر سیلز ٹیکس کی شرح کو 15 فیصد سے کم کرکے 10 فیصد پر لایا گیا ہے۔ سڑک کے کنارے کام کرنے والے مستری خانوں پر ٹیکس کی شرح 5 فیصد سے کم کرکے 2 فیصد کر دی گئی ہے جبکہ صنعتی ورکشاپ کی خدمات پرسیلز ٹیکس کی شرح کو 10 فیصد سے کم کرکے 5 فیصد کر دیا گیا ہے۔بیوٹی پارلرز پر ٹیکس کی شرح کو 8 فیصد سے کم کرکے 5 فیصد کر دیا گیا ہے۔ آلات کی فراہمی، سامان کی ترسیل، کارگو سروسز، انشورنس، نیلامی اور کاروبار سے منسلک دیگر شعبوں میں خدمات فراہم کرنے والے اداروں پر سیلز ٹیکس کی شرح کو 15 فیصد سے کم کرکے 2 فیصد کر دیا گیا ہے۔پراپرٹی ڈیلرز، گاڑیوں کی خرید و فروخت کرنے والے بارگین، کار واش، کال سینٹرز، ڈیجیٹل اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کے شعبے میں خدمات سے وابستہ اداروں اور افراد پر سیلز ٹیکس کی شرح کو5 فیصد سے کم کرکے 2 فیصد کر دیا گیا ہے۔
خدمات کی فراہمی کے جن شعبوں پر سیلز ٹیکس کی شرح میں کمی کی گئی ہے ان کا براہ راست تعلق متوسط اور غریب طبقے سے ہے۔سیلز ٹیکس میں کمی سے ان اداروں کی خدمات کے معاوضے میں بھی کمی آئے گی اور کاروبار کو بھی فروغ حاصل ہوگا۔ اس مرحلے پر حکومت کو دوہرے ٹیکسوں کے عذاب سے عوام کو بچانے کے لئے بھی اقدامات کرنے ہوں گے۔مصنوعات کی تیاری میں مختلف اقسام کا خام مال استعمال ہوتا ہے ہرخام مال پر سیلز ٹیکس لاگو ہے تیار مصنوعات پر الگ سے ٹیکس لگایاجاتا ہے ان کی ہول سیل فروخت پر الگ سے ٹیکس لیاجاتا ہے
اور پرچوں فروش جب وہ مال گاہگ کے ہاتھ فروخت کرتا ہے تو اس سے الگ ٹیکس وصول کیا جاتا ہے۔بجلی کا بل اٹھاکردیکھیں تو اس میں استعمال شدہ یونٹ کی قیمت سے کہیں زیادہ ٹیکس لگے ہوتے ہیں سیلز ٹیکس کے علاوہ سرچارج، اضافی سرچارج، ایڈیشنل سرچارج، ٹی وی فیس، نیلم جہلم سرچارج،محصولات، میٹر کا کرایہ اور حیلے بہانوں سے جرمانہ کی مد میں صارف سے ہزاروں روپے وصول کئے جاتے ہیں اور ستم بالائے ستم یہ ہے کہ یہ زیادتی صرف باقاعدگی سے بل ادا کرنے والوں سے روا رکھی جاتی ہے جو لوگ اپنے اثرورسوخ ، دھونس دھمکی یا میٹر ریڈر کی آشیرباد سے ڈائریکٹ بجلی استعمال کرتے ہیں وہ ٹیکس تو درکنار، بل بھی ادا نہیں کرتے اور اس نقصان کو بھی بل دینے والوں پر ڈالا جاتا ہے۔سوئی گیس ، ایل پی جی سلینڈر،پٹرول، ڈیزل، مٹی کے تیل اور فرنس آئل پر بھی اسی شرح سے ٹیکس لگاکر قیمتیں دوگنی کردی گئی ہیں۔خدمات کی فراہمی کے شعبے میں ڈاکٹروں کی فیس پر ٹیکس بھی شامل ہے۔ اس ملک کے ہر شہری کو طبی سہولیات کی ضرورت پڑتی ہے۔
مالدار لوگ مقامی ڈاکٹروں سے علاج نہیں کرواتے وہ سردرد، دانت میں تکلیف اور پیٹ میں گیس کی شکایت کا علاج بھی لندن، نیویارک، ٹورنٹو، پیرس ، ایمسٹرڈم اور میونخ میں جاکر کرواتے ہیں صرف غریب، دیہاڑی دار، کسان اور تنخواہ دار لوگ ہی مقامی سرکاری اور پرائیویٹ ہسپتالوں اور کلینک جاکر اپنا علاج کرواتے ہیں انہیں ڈاکٹر کی فیس کے علاوہ ادویات کی خریداری، لیبارٹری ٹیسٹوں اور سرجری کروانے کے لئے الگ الگ ٹیکس بھرنے پڑتے ہیں جس کی وجہ سے مناسب علاج کروانا متوسط اور غریب طبقے کی استطاعت سے باہر ہوگیا ہے۔اگر حکومت دوہرے ٹیکسوں کے عذاب سے عوام کو نجات دلانے کے لئے اقدامات کرے تو غریبوں کے آدھے مسائل خود بخود حل ہوجائیں گے۔