پشاور کی ظاہری خوبصورتی‘ بنیادی سہولیات کا نظام اور تاریخ و ثقافت کے جڑے اثاثوں کے تحفظ و بحال کے لئے وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا محمود خان نے کمال توجہ‘ مہربانی اور دردمندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ”جامع حکمت عملی“ کا اعلان کر رکھا ہے‘ اگر اُس میں حسب حال و ضرورت سخاوت کے ساتھ ”اِنسانی پہلو“ بھی شامل کر دیا جائے تو سونے پر سہاگہ رہے گا لیکن اطلاعاً عرض ہے کہ ماضی میں مختلف ناموں سے متعارف کئی گئی ایسی کئی حکمت عملیاں مکمل نہیں کی گئیں اور یہی وہ نکتہ ہے جس کے بارے میں سوچتے ہوئے مایوسی ہوتی ہے کہ زبانی کلامی باتوں اور اعلانات سے ”پشاور کی ترقی کا پیٹ“ نہیں بھر سکتا جبکہ فیصلہ سازوں کے پیش نظر یہ بات بھی رہنی چاہئے کہ گزشتہ بیس برس کے دوران کوئی ایک نہیں بلکہ ہر دورِ حکومت کے دوران ایک سے بڑھ کر ایک جامع ترقیاتی حکمت عملیاں وضع کی گئیں اور ہر مکمل سوچ کا انجام ادھورا کیوں رہا‘ اِس بارے میں زیادہ غوروخوض نہیں کیا جاتا۔ پشاور گھمبیر مسئلہ ہے‘ جس کی نوعیت عمومی نہیں کیونکہ ایک تو یہاں کی آبادی غیرمعمولی رفتار سے بڑھ رہی ہے۔ دوسرا زرخیز زرعی اراضی اور باغات کی جگہ رہائشی بستیاں بنا منصوبہ بندی آباد ہو رہی ہیں اور تیسرا پشاور کی جانب نقل مکانی کرنے کا سلسلہ بھی جاری ہے کیونکہ تین اطراف محرومیوں کی تصویر بنے قبائلی اضلاع میں نہ تو روزگار کے خاطرخواہ مواقع دستیاب ہیں اور نہ ہی وہاں تعلیم و ہنرمندی کے ایسے مراکز موجود ہیں جو نوجوانوں کو مصروف رکھیں اور وہ پشاور سمیت ملک کے دیگر بڑے شہروں کا رخ نہ کریں۔ اگر پشاور کی بحالی کرنی ہی ہے تو ہر ضلع کو اُس کا حق دینا ہوگا بالکل اِسی اصول پر پشاور کے رہنے والوں کے لئے روزگار اور معیار زندگی بہتر بنانے میں سرمایہ کاری وقت کی ضرورت ہے جبکہ دیگر سبھی امور جن کا شمار ”غیرترقیاتی اخراجات“ میں کیا جاتا ہے‘ اگر کچھ وقت کے لئے روک بھی لئے جائیں تو اِس سے فرق نہیں پڑے گا لیکن ضلع پشاور سے تعلق رکھنے والوں کا سرکاری نوکریوں پر حق تسلیم کرتے ہوئے اِس پر نقب ختم ہونی چاہئے۔ ’روزگار‘ انتہائی بنیادی بات ہے جو دیگر ضمنی امور میں دب کر رہ جاتی ہے کیونکہ جب تک روزگار اور کاروبار کی صورتحال میں بہتری نہیں آئے گی‘ پشاور کی خوبصورتی‘ سکون اور ترقیاتی حکمت عملیوں کی پائیداری حاصل نہیں ہو سکے گی۔ پشاور کی ظاہری خوبصورتی اپنی جگہ اہم لیکن اگر بلدیاتی خدمات اور شہری ترقی سے متعلق سرکاری اداروں کی ”کارکردگی کا احتساب“ کیا جائے تو کسی اضافی حکمت عملی کی حاجت باقی نہیں رہے گی۔ مثال کے طور پر پشاور کے ہر ٹاؤن‘ ضلع اور جدید بستیوں کے لئے الگ الگ ’بلڈنگ کنٹرول اتھارٹیز‘ قائم ہیں۔ اِس شعبے کی موجودگی کے باوجود تجاوزات کا قیام اور رہائشی علاقوں میں کثیرالمنزلہ تجارتی عمارتیں کھڑی ہونا تعجب خیز ہے۔ حقیقت حال یہ ہے کہ رہائشی و کمرشل عمارتوں کے تعمیراتی نقشہ جات کی منظوری کے مراحل اور اُن کی عملی اشکال میں زمین آسمان کا فرق ہوتا ہے۔ ہر تعمیر میں کارپارکنگ کے لئے زیرزمین (تہہ خانے) جگہ مختص دکھائی جاتی ہے لیکن عملاً ایسا نہیں ہوتا اور یہی وجہ ہے کہ تجارتی مراکز میں گاڑیاں کھڑی کرنے کی جگہ نہیں ملتی جو ایک ایسا درد سر ہے کہ جس سے شہر‘ چھاؤنی‘ ڈیفینس‘ شامی روڈ‘ یونیورسٹی ٹاؤن اور حیات آباد یکساں اُلجھے اور متاثر ہیں۔ پشاور کے مسائل کثیرالجہتی ہیں اور یہی وجہ ہے کہ یک نکاتی توجہ سے اِس کا استحقاق محفوظ نہیں ہو بنایا جا سکتا۔ حسن اتفاق سے اگر ایک مرتبہ پھر سیاسی و غیرسیاسی فیصلہ سازوں نے اِس بات پر اتفاق کر ہی لیا ہے کہ پشاور کی تعمیروترقی اور اِس کی بحالی ہونی چاہئے تو اِس کے لئے کسی اضافی لائحہ عمل کی ضرورت نہیں اور نہ ہی کمیٹیاں بنا کر اجلاسوں میں وقت اور وسائل ضائع کرنا چاہئے بلکہ اگر متعلقہ اداروں کو اُن کے قواعد پر سختی سے عمل درآمد کرنے کے قابل بنایا جائے۔ سیاسی مداخلت اِس لئے ہو کہ اِداروں پر اَثرانداز ہونے والے محرکات میں بتدریج کمی آتی چلی جائے تب تو جائز ہے لیکن اگر سیاسی مداخلت اختیارات اور فیصلہ سازی پر دسترس کی غرض سے کی جا رہی ہے تو المیہ رہے گا کہ ماضی کی طرح پشاور پر حکمرانی کرنے والوں کی تعداد میں تو اضافہ کر دیا جائے گا لیکن اِس سے خاطرخواہ فوائد حاصل نہیں ہوں گے۔رواں برس کے آغاز (2 جنوری 2020ء) وزیراعلیٰخیبرپختونخوا نے 7 نکاتی ’احیائے پشاور‘ نامی حکمت عملی (ریوائیول پلان) منظور کیا۔ 9 ماہ کے دوران مذکورہ سات نکات کا حاصل کیا ہے اور کوئی ایک بھی منصوبہ اگر مکمل نہیں ہو سکا تو ’روایتی سوچ اور طرزحکمرانی‘ پر نظرثانی کرنا ہوگی۔