افغان حکومت نے بچوں کے پیدائشی سرٹیفکیٹ پر والد کے بجائے والدہ کا نام لکھنے کی منظوری دیدی ہے۔اس سے پہلے دنیا بھر کی طرح افغانستان میں بھی بچوں کے پیدائشی سرٹیفکیٹس پر صرف والد کا نام لکھا جاتا تھا جب کہ وہاں خواتین کی شادیوں کے دعوت ناموں اور یہاں تک کہ ان کی قبروں کے کتبوں پر بھی ان کا نام لکھنا معیوب سمجھا جاتا ہے۔ حکام کا کہنا ہے کہ بچوں سمیت والد کے ایک جیسے نام ہونے کی وجہ سے افغانستان میں حالیہ چند سال میں شناخت میں کچھ مسائل پیدا ہوئے تھے، جس کے بعد خواتین کے حقوق کے لئے کام کرنے والی تنظیموں اور کارکنان نے پیدائشی سرٹیفکیٹ میں والدہ کا نام شامل کرنے کی مہم شروع کی تھی۔ افغانستان میں کچھ عرصے سے ”میرا نام کہاں ہے“ کے ہیش ٹیگ سے مہم جاری تھی اور اسی مہم کے دوران افغانستان کی خواتین کے امور سے متعلق کمیٹی کی چیئرپرسن اور رکن پارلیمنٹ ناہید فرید نے برتھ قوانین میں ترمیم کا مجوزہ بل پیش کیا تھا۔مذکورہ بل پر افغان کابینہ نے غور و خوض کے بعد اس کی منظوری دیدی۔ کابینہ کمیٹی کی اجازت کے بعد اب مذکورہ بل کو پارلیمنٹ میں پیش کیا جائے گا، جہاں سے منظوری کے بعد ملک کے صدر بل پر دستخط کریں گے۔ والد ہ کا نام برتھ سرٹیفکیٹ میں شامل کرنے کے لئے جو جواز تراشے گئے ہیں وہ زیادہ معتبر نہیں ہے اور کئی حوالوں سے اس پر تنقید کی جا سکتی ہے خاص کر افغان معاشرے کو مدنظر رکھتے ہوئے اس کے خلاف آواز اٹھنے کے امکانات زیادہ ہو سکتے ہیں۔پارلیمنٹ میں مجوزہ بل کو قدامت پسند سیاستدانوں کی جانب سے مخالفت کا سامنا ہوگا اور عین ممکن ہے کہ بل کو حکومت منظور کرانے میں ناکام بھی ہوجائے۔ حکومت کی کوشش ہے کہ مذکورہ بل کو رواں ماہ 21 پارلیمنٹ کے اجلاس سے منظور کروائے۔ حکومتی فیصلے پر خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیموں نے اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ مذکورہ فیصلے سے خواتین کو صدیوں بعد اپنی شناخت ملے گی۔اگرچہ ہم بھی ذاتی طور پر حقوق نسواں کے زبردست حامی ہیں لیکن افغان کابینہ کے فیصلے پر چند خدشات کا اظہار کرنے کا اپنا آئینی حق استعمال کرتے ہوئے ہم اس اندیشے کا ذکر کرنے میں حق بجانب ہیں کہ اگربرتھ سرٹیفیکیٹ جیسی اہم دستاویزات پر باپ کا نام لکھنے پر پابندی لگ گئی تو افغان حکام بیرونی دباؤ اور اندرونی انتشار کی وجہ سے مردوں کے شناختی کارڈ پر بھی ولدیت کے بجائے زوجیت کا خانہ ڈال کر بیوی کانام لکھنا شروع نہ کردیں۔ یورپ اور دیگر مغربی ملکوں میں اگر شناختی کارڈ، برتھ اور سکول سرٹیفیکیٹ اور تعلیمی اسناد پر باپ کے بجائے ماں کا نام لکھا جائے تو اس کی وجہ بھی سمجھ میں آتی ہے۔ وہاں خاندانی نظام کا کوئی خاص تصور نہیں ہے۔ دوچار فیصد میاں بیوی ایسے ہوں گے جو اپنی شادی کی دسویں یا پندرھویں سالگرہ ایک ساتھ مناتے ہوں گے۔ وہاں چند مہینوں یا چند سالوں کے ساتھ شادیاں ہوتی ہیں پھر میاں بیوی میں ہنسی خوشی علیٰحدگی ہوتی ہے وہاں عدت کی بھی کوئی پابندی نہیں طلاق کے ہفتے دو ہفتے کے اندر مرد اور عورت کو شادی کرنے کی اجازت ہے۔ افغان حکام کی طرف سے برتھ سرٹیفیکیٹ پر والدہ کا نام لکھنے کے اس جوازکو معتبر قرار نہیں دیا جاسکتا ہے کہ مردوں کے ایک جیسے نام ہونے کی وجہ سے بچوں کی شناخت میں مشکل پیش آتی ہے۔ ضروری تو نہیں کہ لوگ اپنے بچوں کے نام انارگل، غنچہ گل،طوریے،لیونئے ہی رکھ دیں،ماشا اللہ افغانستان کی 98فیصد آبادی مسلمانوں پر مشتمل ہے اور مردوں کے ہزاروں لاکھوں اسلامی نام ہیں۔اس سلسلے میں پڑھے لکھے لوگوں اور مولویوں کی مدد بھی حاصل کی جاسکتی ہے۔میرانام کہاں ہے اور میرا جسم میری مرضی والے قابل اعتراض نعروں پر مشتمل تحریکوں پر بھی خود حقوق نسواں کے علمبردار مردوں نے ناپسندیدگی کا اظہار کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ نام پیدا کرنا شخصیت کی اپنی صلاحیتوں پر منحصر ہے۔ دنیا میں بہت سی خواتین ایسی ہیں جنہوں نے اس قسم کی کسی تحریک کا سہارا نہیں لیا اور دنیا بھر میں ان کے نام کے ڈنکے بجتے ہیں جن میں ہماری شہید وزیراعظم بے نظیر بھٹو، اندرا گاندھی، بندرانائیکے، تانسو چیلر، مارگریٹ تھیچر، حسینہ واجد، نور جہاں، لتامنگیشکر جیسی نامور خواتین شامل ہیں۔افغان مردوں کو اپنے ساتھ ہونے والی اس صنفی ناانصافی کے خلاف آواز ضرور اٹھانی چاہئے۔