خیبرپختونخوا حکومت نے ذخیرہ اندوزی پر قابو پانے کےلئے قانون کا مسودہ تیار کرلیا ہے جسے بل کی صورت میں اسمبلی میں پیش کیاجائے گا۔اس قانونی مسودے کےمطابق روزمرہ ضرورت کی اشیاءکی مارکیٹ میں مصنوعی قلت پیدا کرنے کے لئے ذخیرہ اندوزی کرنے والوں کو قید اور جرمانے کی سزائیں دی جائیں گی اور ذخیرہ اندوزی کے حوالے سے اطلاع دینے والے کو انعام و اکرام سے نوازا جائے گا۔خیبرپختونخوا کوڈ 19انسدادذخیرہ اندوزی بل میں کہا گیا ہے کہ ذخیرہ اندوزی میں ملوث ڈیلر کو 3 سال قید اور جرمانہ ہوگا۔مجوزہ بل کے مطابق ذخیرہ کئے گئے سامان کی لاگت کا 50فیصد تک جرمانہ ہوسکتا ہے ، مجسٹریٹ بغیر وارنٹ سٹور کو سیل کرسکے گا، ذخیرہ اندوزی کی اطلاع دینے والے کو سامان کی قیمت کا 10فیصد انعام کے طور دیا جائے گا۔حکام کا کہنا ہے کہ کورونا اور لاک ڈاﺅن کے دوران ذخیرہ اندوزی کی شکایات کے پیش نظر قانونی بل تیار کیا گیا ہے۔
تاکہ اشیائے ضروریہ کی مصنوعی قلت کے ذریعے ضرورت کی چیزیں مہنگی بیچنے والوں کے ساتھ نمٹا جاسکے۔ جب سے پاکستان تحریک انصاف کی حکومت آئی ہے مہنگائی کی روز نئی لہر آتی ہے ۔شہری آٹامہنگا ہونے کا رونا رورہے ہوتے ہیں ابھی ان کے آنسو بھی خشک نہیں ہوئے ہوتے کہ چینی کے دام بڑھ جاتے ہیںغریب بندہ چینی کی بجائے کھانڈ استعمال کرے گا۔ چائے میں چینی کی جگہ نمک ڈالے گا، حلوہ نہیں کھائے گا مگر آٹے کے بغیر تو ہمارا گزارہ ہی نہیں۔ بیس کلو آٹے کے تھیلے کی قیمت آٹھ سو سے بڑھا کر تیرہ سو روپے کردی گئی ہے۔بات اگر گندم اور چینی پر ہی ختم ہوتی تو بھی ہم پروا نہ کرتے ،مگر یہاں تو ہر چیز ہر روز مہنگی ہوتی جارہی ہے۔
شلجم دس روپے کلو خریدنے میں بھی ہم عار محسوس کرتے تھے وہی شلجم آج 80روپے کلو خریدنے پر مجبور ہیں جبکہ آلو تو دس پندرہ روپے کلو سے کبھی زیادہ داموں ہم نے نہیں خریدے وہی آلو آج سو روپے کلو بک رہا ہے۔انڈے، چکن، ملائی، دودھ، دہی ، پنیر وغیرہ کا استعمال عیاشی کے سامان میں شمار ہونے لگاہے ۔دام بڑھنے کی دکاندار سے وجہ پوچھیں تو منہ بناکر ٹکا سا جواب دے دیتا ہے کہ پیچھے سے سامان مہنگا آرہا ہے ۔اور پیچھے والا دشمن ہمیں کبھی نظر نہیں آیا۔بڑے غوروفکر کے بعد پتہ چلا کہ پیچھے سے مہنگی چیز سپلائی کرنے والا ذخیرہ اندوز ہی ہے ۔ جوسستا سامان خرید کراسے مہنگا بیچنے کے لئے پیچھے گودام میں چھپا دیتا ہے۔حکومت نے پیچھے والے عوام دشمن آدمی کو سزا دینے کے لئے قانون کا مسودہ تو تیار کرلیا ہے مگر پیچھے والے آدمی کا پیچھا کرنے کےلئے قانون نافذ کرنے والوں کو کافی پیچھے جانا پڑے گا۔جب تک ہاتھ دھو کر اس کے پیچھے نہیں پڑتے، وہ پکڑائی نہیں دے گا۔مال چھپانے کے عمل میں پیچھے والے آدمی کے پیچھے بھی کچھ لوگ ضرور ہوں گے۔
ان میں دو طبقوں کے لوگ شامل ہیں ایک بااثر سرکاری حکام ہوتے ہیں جو ان ذخیرہ اندوزوں کی پشت پر ہوتے ہیں مال مہنگا ہونے پر انہیں بھی معقول حصہ ملتا ہے اور دوسرا طبقہ مال چھپانے میں مدد کرنے والے نوکروں کا ہے۔ حکومت کا خیال ہے کہ انعام کے لالچ میں یہ نوکر اور مزدور قسم کے لوگ ذخیرہ اندوزوں کی ضرور نشاندہی کریں گے۔ان لوگوں کا حکومت سے مطالبہ ہے کہ ” رقم بڑھاﺅ، ہم تمہارے ساتھ ہیں“اور مہنگائی کے مارے غریب شہری حکومت سے یہی کہہ سکتے ہیں کہ ” قدم بڑھاﺅ، ہم تمہارے ساتھ ہیں“حکومت کو صرف قانون بنانے پر اکتفا نہیں کرنا چاہئے اگر عوام کو ریلیف پہنچانا ہے اور انہیں اپنا حامی بنانا ہے تو ذخیرہ اندوزوں کو پکڑنے کےلئے رقم اور قدم دونوں بڑھانے پڑیں گے۔تاکہ مصنوعی قلت پیدا کرکے دام بڑھانے کےلئے سامان پیچھے والے گودام میں چھپانے والے عناصر کوعوام کا پیچھا چھوڑنے پر مجبور کیا جاسکے۔ہر شہر میں آٹھ دس ذخیرہ اندوزوں کو سزائیں ہوجائیں تو دوسرے عبرت پکڑیں گے عوام کو اپنی چمڑی ادھیڑنے والوں اور حکومت کو عوام میں بدگمانی پھیلانے والوں سے نجات مل جائے گی۔