کرشماتی منظرنامہ

افغانستان میں عسکری مزاحمت کا ایک باب احمد شاہ مسعود ہیں‘ جن کی برسی کے موقع پر دارالحکومت کابل میں احمد شاہ مسعود کے آبائی علاقے پنج شیر سے تعلق رکھنے والے اُنچاس سالہ‘ افغان نائب صدر امراللہ صالح کو نشانہ بنانے کی کوشش کی گئی‘ جس میں وہ محفوظ رہے اور افغان وزارت صحت کی جانب سے تصدیق کی گئی ہے کہ حملے میں کم سے کم چار افراد ہلاک جبکہ زخمیوں میں امراللہ صالح کے محافظین و دیگر شامل ہیں۔ بین اَلافغان مذاکرات شروع ہونے سے قبل اِس قسم کی دہشت گرد کاروائی کا مقصد صرف اعلیٰ حکومت رکن ہی کو نشانہ بنانا نہیں تھا بلکہ اِس سے ’اَمن مذاکرات کی ناکامی‘ مقصود نظر آتی ہے کیونکہ افغان حکومت میں شریک اقتدار شمالی اتحاد کے لئے 9ستمبر کے روز لگنے والا ایک اور گھاو¿ اُن کے پرانے زخم تازہ کرنے کا باعث بن سکتا ہے اور یوں بین الافغان مذاکرات کچھ عرصے کے لئے معطل ہو سکتے تھے

 

افغانستان کے کرشماتی منظرنامے میں ہر فیصلہ‘ تدبیر اور حکمت انہونی ہے اور اِن کے نتائج بھی انہونے ہیں۔ دنیا جن سفارتی اور دفاعی حکمت عملیوں کے بل بوتے پر آگے بڑھ رہی ہے‘ افغانستان میں وہ سبھی ناکام دکھائی دیتی ہیں اور اِس کی بنیادی وجہ سیاسی قیادت کا کسی ایک مو¿قف کی مکمل حمایت یا مخالفت نہ کرنا ہے۔ عالمی طاقتیں اپنے اپنے مفادات کے لئے افغانستان کے سیاسی حکمرانوں کو استعمال کرتی آئی ہیں اور اب جبکہ مستقبل کا تعین ہونے والا ہے تو اقتدار میں زیادہ سے زیادہ حصہ داری اور اپنا اپنا سیاسی مستقبل محفوظ بنانے کی فکر کھائے جا رہی ہے!

 

دوسری طرف بین الافغان مذاکرات سے قبل طالبان نے بھی اپنے نمائندہ وفد کے اراکین میں ردوبدل کا اعلان کرتے ہوئے مولوی عبدالحکیم کو نیا سربراہ نامزد کیا ہے جو طالبان کے ’چیف جسٹس‘ ہیں اور اکیس رکنی وفد کی قیادت کریں گے۔ اِس اکیس رکنی وفد کے دیگر اراکین کون ہوں گے اور اِس قدرے بڑے وفد کی ضرورت کیا ہے‘ یہ ایسے سوالات ہیں‘ جنہوں نے سوالات کو بھی الجھا کر رکھ دیا ہے۔ مذاکرات کب اور کہاں ہونے ہیں‘ اِس بارے میں کسی تاریخ و مقام پر اتفاق نہیں ہوا تاہم تیاریاں جاری ہیں اور اِن جاری تیاریوں کو تہس نہس کرنے کے لئے حملے بھی ہو رہے ہیں

 

یہی وجہ ہے کہ بین الافغان مذاکراتی عمل جس قدر جلد شروع اُتنا ہی بہتر اور افغانستان کے لئے مفید ہوگا حیرت انگیز امر یہ ہے کہ افغانستان میں قیام امن کی راہ میں سب سے زیادہ دلچسپی افغان فریقین کی نہیں بلکہ ریاست ہائے متحدہ امریکہ کی ہے‘ جبکہ روس‘ چین اور وسطی ایشیائی ریاستوں کی افغانستان سے جغرافیائی قربت کی وجہ سے اِن کے مفادات بھی افغانستان ہی سے وابستہ ہیں۔ اگر قیام امن ہو جاتا ہے تو اِس سے پاکستان بھی فائدہ اُٹھانے والوں میں شامل ہوگا کیونکہ قریب ڈھائی ہزار کلومیٹر طویل مشترک سرحد کے ساتھ پاکستان کے راستے راہداری اور دیرینہ تجارتی‘ ثقافتی اور مذہبی روابط و مراسم اپنی جگہ اہم ہیں۔ پاکستان اس تنازعہ میں اُلجھا ہوا ہے جس نے نہ صرف اس کی خارجہ پالیسی بلکہ خاص طور پر خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں بھی معاشی و اِقتصادی ڈھانچے کو متاثر کیا ہے لہٰذا صرف اَفغانستان ہی نہیں اَفغان امن کی پاکستان کو بھی اشد ضرورت ہے کیونکہ اگر سرحد پار عدم استحکام رہتا ہے تو اِس کے منطقی منفی اثرات پاکستان پر ضرور مرتب ہونگے۔