وفاقی حکومت نے شہریوں کے مفادات کے تحفظ کےلئے سائبر کرائمز ونگ کے قیام کی منظوری دی ہے۔سائبر کرائم ونگ کے قیام کامقصد ان عناصر کی نشاندہی اور انہیں قانون کے شکنجے میں لانا ہے جو معصوم لوگوں کو دھوکے اور جعل سازی کے ذریعے احساس امداد اور دیگر حوالوں سے لوٹتے ہیں ڈیجٹیل ٹیکنالوجی کی مدد سے لوگوں کو جعلی پیغامات بھیج کر ان سے پیسے بٹورے جاتے ہیں ۔ہمارے ہاں روزانہ ہزاروں افراد کو اس قسم کے جعلی پیغامات بھیجے جاتے ہیں انہیں بھاری انعام کا لالچ دے کر لوٹنے کی کوشش کی جاتی ہے
کبھی جیوپاکستان پروگرام میں لاکھوں نقد انعام، سونا اور موٹر سائیکل نکلنے کی خوش خبری دی جاتی ہے کبھی کسی کو بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے تحت پچیس ہزار روپے نکلنے کی نوید دی جاتی ہے کسی کو جیک پاٹ گیم میں کروڑوں کا انعام نکلنے اور کسی کو معروف بین الاقوامی کمپنی کی طرف سے موبائل نمبروں کی قرعہ اندازی میں بھاری انعام نکلنے کا جھانسہ دے کر لوٹنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ جدید ٹیکنالوجی کا استعمال عام ہونے سے جہاں شہریوں کو بے شمار سہولتیں میسر آئی ہیں وہیں اس کے غلط استعمال کی وجہ سے سنگین معاشرتی مسائل بھی جنم لے رہے ہیں ۔موبائل ٹیکنالوجی کو ہی لیں۔اس چھوٹے سے آلے نے انسان کی زندگی کتنی آسان بنادی ہے۔
اس سے ہم اندرون و بیرون ملک اپنے پیاروں سے رابطہ کرسکتے ہیں ان سے سکائپ کے ذریعے بالمشافہ بات چیت کرسکتے ہیں انہیں پیغامات بھیج سکتے ہیں ان کے ساتھ ویڈیوز اور تصاویر شیئر کرسکتے ہیں موبائل سیٹ کے ذریعے ہم اپنی پسندیدہ کتاب ڈاﺅن لوڈ کرکے پڑھ سکتے ہیں ۔تحقیقی مقالہ جات سے استفادہ کرسکتے ہیں اپنی پسندیدہ وعظ، تقریر ، ڈرامے اور فلم محفوظ کرسکتے ہیں اسی موبائل نے ہمیں گھڑی کی ضرورت سے بے نیاز کردیا ہے اس میں موسم کا حال بھی معلوم کرکے اپنی مصروفیات کا شیڈول مرتب کرسکتے ہیں درجہ حرارت اور موسمی تبدیلیوں کے بارے میں جان سکتے ہیں کسی بھی علاقے یا مقام کے بارے میں گوگل میپ کے ذریعے معلومات حاصل کرسکتے ہیں تہجد اور فجر کی نماز کے لئے اس کا الارم ہمیں گہری نیند سے اٹھاتا ہے۔
اور اسی موبائل کو لوگ اغوا برائے تاوان اور دہشت گردی کے لئے بھی استعمال کرتے ہیں اشتعال انگیزی پھیلا کر ملک میں بدامنی پیدا کرسکتے ہیں فرقہ واریت کی آگ بھڑکاسکتے ہیں ۔اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئر مین پروفیسر ڈاکٹر قبلہ ایاز نے بھی اسلامی یونیورسٹی میں منعقدہ بین الاقوامی کانفرنس سے خطاب میں اس مسئلے کی سنگینی کا احاطہ کیا ہے ان کا کہنا ہے کہ اس معاشرے میں صرف ایک اشتعال انگیز بیان ہی ہنگامی صورتحال پیدا کر سکتا ہے۔ انسانی رویوں میں بہتری لانے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ہم معاشرے میں عدم تشدد کے پرچار کاسہرا جنوبی افریقہ کے سیاہ فام رہنما نیلسن منڈیلا کے سر باندھتے ہیں حالانکہ یہ تعلیم ڈیڑھ ہزار سال قبل دین اسلام نے دنیا کو دیا ہے۔
بدقسمتی سے ہم نے اپنی تاریخ کو بھلا دیا ہے،جن ممالک نے تنازعات اور اختلافات کو پس پشت ڈال کر مشترکات کو فروغ دیا انہوں نے اپنے معاشروں میں پائیدار امن قائم کیا اورترقی انکا مقدر بنی۔ جس معاشرے کو چیلنجوں کا سامنا نہ ہو،وہ معاشرہ مردہ ہوتا ہے۔انسان کا کمال یہ ہے کہ وہ کیسے چیلنجوںکو امکانات میں تبدیل کرتا ہے۔معاشرے کو درپیش چیلنجوں کا مقابلہ کرنے کی حکمت عملی طے کرنے کی ذمہ داری ریاست کی ہوتی ہے اور ریاست کے معاملات طے کرنے والے حکمرانوں پر یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ شہریوں کی جان و مال اور عزت و آبرو کا تحفظ کریں انہیں وہ تمام بنیادی شہری سہولیات فراہم کریں جن کے بغیر زندگی گزارنا مشکل ہوتا ہے۔
قانون کی حاکمیت اور ریاست کی رٹ کا مقصد یہی ہوتا ہے کہ کوئی فرد یا افراد کا گروہ اپنے ذاتی مفادات کے لئے قانون ہاتھ میں لینے، کسی کی جان، مال اور عزت کا داﺅ پر لگانے کی جرات نہ کرسکے اور اگر کسی نے ریاست کے اندر اپنی الگ ریاست قائم کرنے کی کوشش کرے تو اس کے ساتھ آہنی ہاتھوں سے نمٹا جائے۔قوموں کی زندگی میں ترقی کا سفر کافی کٹھن ،کانٹوں سے بھر پور اور تھکا دینے والا ہوتا ہے۔راستے کی رکاوٹوں سے دلبرداشتہ ہوکر جدوجہد کا راستہ ترک کرنے والی قومیں کبھی منزل مراد کو نہیں پاسکتیں۔یہی بات شاعر مشرق نے اپنی نوجوان نسل کو سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ ” مٹادے اپنی ہستی کو اگر کچھ مرتبہ چاہے۔ کہ دانہ خاک میں مل کر گل و گلزار ہوتا ہے۔ اسی بات کو دوسرے الفاظ میں علامہ اقبال نے یوں سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ ”تمنا آبرو کی ہو اگر گلزار ہستی میں۔ تو کانٹوں میں الجھ کر زندگی کرنے کی خو کرلے“۔