تلخیاں: بندہ مزدور کے اوقات

غربت و بیروزگاری اِس قدر بے بسی کو جنم دیتی ہے کہ انسان موت کو گلے لگا لیتا ہے اور غیرضروری خطرات مول لیتا ہے۔خیبرپختونخوا سمیت ملک کے کسی بھی حصے میں مزدوروں کے حالات کار قابل ذکر و بیان نہیں لیکن کان کنی کے شعبے سے تعلق رکھنے والے محنت کشوں کو بالخصوص جن مشکلات اور حادثات کا سامنا کرنا پڑتا ہے‘ اُس کی شدت و نوعیت دیگر پیشوں کی نسبت انتہائی زیادہ ہے۔ کان کن کو زندگی یا موت اور بیماری یا معذوری میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا ہوتا ہے۔ زیرِزمین اور طویل و تاریک سرنگوں میں کام کرنے والے اِن مزدوروں کو ملنے والی اجرت و علاج معالجہ ناکافی جبکہ بیمہ نہ ہونے کی وجہ سے مشکلات درپیش رہتی ہیں۔ آٹھ ستمبر کے روز ضلع مہمند کی تحصیل صافی میں ہوئے حادثہ اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ نہیں بلکہ اِس سے قبل بھی ایسے ہی واقعات کئی علاقوں میں پیش آتے رہے ہیں اور چونکہ حادثات کی وجہ خاطرخواہ احتیاطی تدابیر کا نہ ہونا ہے

 

 اِس لئے اُن مزدوروں کی زندگیاں بھی مستقل خطرے سے دوچار ہیں جہاں حادثات رونما نہیں ہو رہے۔ آخر ہمارے حکومتی فیصلہ ساز اِس بنیادی بات کو کیوں نہیں سمجھ رہے کہ حادثہ ہونا ہی ضروری نہیں ہوتا لیکن اگر (خوش قسمتی سے) حادثہ نہ بھی تب بھی مزدوروں کی جان و مال اور اُن کے ملازمتی حالات کار کو بہتر بنانا حکومتی اداروں ہی کی ذمہ داری ہوتی ہے اور ہمارے حکمران ایسے درجنوں عالمی معاہدوں پر دستخط کئے بیٹھے ہیں جن کے تحت مزدوروں کو تحفظ فراہم کرنا حکومت کی آئینی اور عالمی معاہدوں کی رو سے اخلاقی ذمہ داری ہے۔بنا حفاظتی اِنتظامات‘ بنا قواعد و ضوابط اور جانی و مالی تحفظ کے بغیر کان کنی جرم ہے اور یہ جرم کھلے عام جاری ہے! صوبائی حکومت کی جانب سے تشویش اُس صورت میں کافی اور قابل ذکر ہوتی جب کان کنی کے نگران متعلقہ سرکاری ادارے کی کارکردگی کا احتساب کرتے ہوئے حکومتی محکموں کے سربراہوں اور نگرانوں کو بھی شریک جرم تصور و شمار کیا جاتا۔

 

اگر ایسا نہ کیا گیا تو پے در پے حادثات ہوتے رہیں گے اور آئے روز محنت کشوں کو دفنانے کے لئے زمین کم پڑ جائے گی! ضلع مہمند میں ہوئے حادثے کے بعد سامنے آنے والی تفصیلات حیران کن ہیں جیسا کہ مذکورہ تحصیل اور ملحقہ علاقوں میں بڑے پیمانے پر قانونی و غیرقانونی کان کنی ہوتی ہے لیکن وہاں کان کنی کے حادثات کے نمٹنے کے لئے آلا ت دستیاب نہیں تھی جو وزنی چٹانوں اور لاکھوں ٹن ملبے کو فوری ہٹانے کا عمل شروع کرتی اور اگر ایسا ہوتا تو جانی نقصان کو بڑی حد تک کم کیا جا سکتا تھا۔ مرنے والے مزدوروں میں کم عمر کے نوجوان بھی تھے‘ جن سے قوانین و قواعد کے تحت اِس قسم کی یا کسی بھی قسم کی جسمانی مشقت نہیں لی جا سکتی! کان کنی کے عمل کو تیز رفتار بنانے کے لئے بارودی مواد کا غیرسائنسی استعمال ایک عام سی بات ہے جس کی وجہ سے کان کی دیواریں اور فرش کمزور ہو جاتی ہے

 

اور عموماً معمولی سے زلزلے یا بارش کی وجہ سے یہ اپنے ہی وزن و کمزوری کے باعث دھنس جاتی ہے‘ جس سے کان کے اندر ہوا کی آمدورفت رک جاتی ہے اور مزدور پھنس جاتے ہیں‘جنہیں بچانے کے لئے اگر فوری کاروائی نہ کی جائے تو ناقابل تلافی جانی نقصان ہوتا ہے! ذہن نشین رہے کہ کان کنی سے متعلق حادثات اور خطرات کم کرنے کے لئے قوانین موجود ہیں۔ ”مائنز ایکٹ 1923ئ“ اُور ”کول مائن آرڈیننس 1960ئ“ براہ راست کان کنی سے متعلق امور کا احاطہ کرتے ہیں جبکہ دیگر کئی قوانین و عالمی معاہدے محنت کشوں کے لئے حفاظتی طریقہ کار کا احاطہ کرتے ہیں لیکن سارے کے سارے قانون کتابوں میں بند پڑے ہیں۔ تنخواہیں اور مراعات لینے والے اپنے فرائض منصبی درست انداز سے سرانجام دے رہے ہوتے۔ کان کنی کے ہر مرحلے کی خاطرخواہ نگرانی ہو رہی ہوتی تو ایسے حادثات رونما ہی نہ ہوتے! کان کنی کے حادثات کم کرنے کا واحد طریقہ کان کنوں کو بااختیار بنانا اور ہر بار جب بھی کوئی حادثہ ہوتا ہے تو کان مالکان کو مجرمانہ غفلت کا الزام ٹھہرانا ہے۔ حکومت اور حکومتی اداروں کا فرض ہے کہ حفاظتی انتظامات سے متعلق قواعد و طریقہ¿ کار پر مکمل عمل درآمد کے ذریعے پائیدار و حسب حال تبدیلی ممکن بنائے۔