آ ج اس عظیم مگر بدقسمتی سے گمنا م ہیرو کی برسی منائی جارہی ہے جس کے نام اور کام سے صوبے کی نوجوان نسل کی اکثریت بے خبر ہے ہمارا میڈیا بھی غیرملکی فنکاروں اورگویوں کے حوالہ سے سال کے بارہ مہینے تو قوم کو آگاہ کرتارہتاہے ان کے ایام پیدائش سے لے کر برسیوں تک خصوصی نیوزبلیٹن اور پروگرام نشر کئے جاتے ہیں مگر اپنے سپوتوں کے کارناموں سے قوم کو آگاہ کرنے کی زحمت کم ہی گوارہ کی جاتی ہے اگرہم اپنے صوبہ کی بات کریں تو صرف میدان سیاست میں ہی ہمیں کتنے ہی بڑے نام دکھائی دیتے ہیں کہ جن کومکمل طورپرفراموش کردیاگیاہے اس معاملہ میں اجتماعی اورانفرادی دونوں ذمہ داریوں سے انکار ممکن نہیں وگرنہ ان کے کارناموں اور کردار کے حوالہ سے کتابیں لکھی جاسکتی ہیں
مذاکرے ہوسکتے ہیں محافل بپا کی جاسکتی ہیں آج ہم بھی اس سرزمین کے ایک ایسے ہی گوہر نایاب کاذکرکریں گے ¾جس کو خود اس کی اپنی جماعت نے عشروں تک بھلائے اورنظرانداز کئے رکھا مگر بہر حال اے این پی کی موجودہ صوبائی قیادت اس حوالہ سے ستائش کی مستحق ضرورہے کہ اس نے آج ان کی برسی کی مناسبت سے باچا خا ن مرکز میں تقریب کا اہتمام کررکھاہے ¾یہ عظیم رہنمامردان کے علاقہ بخشالی سے تعلق رکھنے والے خان امیر زادہ خان مرحوم ہیں والد کانام خوئیداد خان تھا پندرہ نومبر 1918ءکو پید اہونے والے امیر زادہ خان نے مڈل اورمیٹر ک کے امتحانات میں پورا صوبہ پنجاب بورڈٹاپ کیاتھا کیونکہ اس وقت ہمارے صوبہ میں کوئی بورڈ نہیں تھا انہوں نے جو ریکارڈ قائم کیاتھااس کی اہمیت کااندازہ اس امر سے لگایا جاسکتاہے کہ اس وقت کے ڈی سی سکندرمرزا نے جو بعد میں پاکستان کے آخری گورنر جنرل اور پہلے صدر رہے نے منعقد ہ تقریب میں ان کو اپنی طرف سے 38بور کاریوالور بطور انعام دیا ان دنوں گنتی کے چند معززین ہی ذاتی اسلحہ رکھتے تھے
پنجاب یونیورسٹی سے بی اے کرنے کے بعد علی گڑھ چلے گئے اور قانون کی ڈگری حاصل کی اپرنٹس شپ کے لئے کراچی منتقل ہوئے اور نامور قانون دان اے کے بروہی کے شاگرد بنے اپرنٹس شپ مکمل ہونے کے بعد مردان واپس آگئے اور پریکٹس شروع کردی امیر زادہ خان جوانی سے ہی باچاخان اور ان کی تحریک سے متاثر تھے اور ان کے ساتھ کام کرتے رہے تھے ¾جنرل ایوب خان کی مارشل لاءمیں جب باچا خان گرفتار ہوئے تو امیر زادہ خان نے ان کامقدمہ لڑنے کااعلان کردیا یہ وہ دور تھاکہ جب سینئر وکلاءبھی مارشل لاءانتظامیہ سے ٹکر لینے سے کترارہے تھے مگریہ وفا کاپیکر ڈٹ کرکھڑا ہوا اور باچا خان کاکیس لڑا ¾1964ءمیں جب ایوب خان نے صدارتی الیکشن کروانے کااعلان کیا تو امیر زادہ خان نیشنل عوامی پارٹی کے سرگرم رہنماکے طورپر سامنے آچکے تھے
اسی سال قومی اسمبلی کے الیکشن کااعلان بھی کیا گیا مردان اورصوابی پرمشتمل قومی اسمبلی کاایک ہی حلقہ تھا سرکاری امیدوارکی حیثیت سے نوابزادہ عبدالغفور ہوتی سامنے آئے ان کے مقابلہ میں نیشنل عوامی پارٹی اور دیگر اپوزیشن جماعتوں نے امیر زادہ خان کو امید وار نامزد کردیا کہاجاتاہے کہ سرکاری امیدوار کو بلامقابلہ کامیاب کرانے کے لئے امیرزادہ خان پر دستبرداری کے لئے دباﺅ ڈالاجانے لگا یہ بھی کہاجاتاہے کہ ان کو دوہزار کنال قیمتی زرعی اراضی اورپانچ لاکھ روپے نقد کی پیشکش بھی کی گئی یہ کتنی بڑی رقم تھی اس کااندازہ اس سے لگایا جاسکتاہے کہ اس وقت سونے کی قیمت 100روپے فی تولہ تھی امیر زداہ خان جانتے تھے
کہ وہ جیت نہیں سکتے مگرانہوں نے بکنے اورجھکنے سے انکار کردیا وہ یہ مقابلہ بہت کم فرق سے ہارے مگر اپنے لوگوں کے دل جیت لئے چنانچہ محض چھ سال بعد جب 1970ءکے انتخابات کامرحلہ آیا تو انہوںنے قومی اور صوبائی اسمبلی دونوں نشستوں پر بیک وقت کامیابی حاصل کی ان کو باچاخان کی خواہش پر دونوں ٹکٹ دیئے گئے تھے باچاخان کی خواہش تھی کہ ولی خان ،اربا ب سکندر خان خلیل اور امیرزادہ خان ضرور اسمبلیوں کاحصہ بنیں اس لئے ان کو قومی اورصوبائی اسمبلیوں کے لئے ٹکٹ جاری کئے گئے ولی خان اور امیرزادہ قومی اور صوبائی اسمبلی کے اراکین منتخب ہوئے البتہ ارباب سکند ر خلیل قومی اسمبلی کاالیکشن ہارگئے اس کے بعد امیر زادہ خان کانیا سیاسی سفرشروع ہوا انہیں ولی خان کا بھرپور اعتماد حاصل تھا جب 1972ءمیں حکومت سازی کےلئے بھٹو کے ساتھ مذاکرات ہو رہے تھے ¾نیپ ،پی پی اور جے یو آئی کے درمیان سہ فریقی معاہدہ معاہدہ تشکیل پارہاتھا
تو امیر زادہ خان نے مرکز ی کردار ادا کیاپھر جب نیپ اور جے یو آئی کی مخلوط حکومت قائم ہوئی تو امیرزادہ خان کو سینئر وزیر برائے تعلیم ،قانون اور پارلیمانی امور مقرر کیاگیا اسی طرح پھرجب 1973کا آئین تشکیل پارہاتھا تو نیپ کی طرف سے غوث بخش بزنجو ور امیر زادہ خان مشترکہ آئینی کمیٹی کے اراکین تھے جو حفیظ پیرزادہ کی سربراہی میں کام کررہی تھی امیر زادہ خان نے یہاں بھی اپنی بھرپور صلاحیتوں کامظاہرہ کیا وہ بہتر ین مقر رتھے فی البدیہہ اور پرجوش تقریر میں ان کاکوئی ثانی نہ تھا 14اگست 1973کو قومی اسمبلی نے آئین کی منظوری دی تو امیر زادہ خان نے اپنی مشہور تقریر کی ان کی فی البدیہہ تقریر پانچ گھنٹے اور 35 منٹ پرمشتمل تھی جو آج بھی قومی اسمبلی کی طویل ترین فی البدیہہ تقریر کاریکارڈ رکھتی ہے
پارٹی کو ان پر اتنا اعتماد تھاکہ جب 1973میں صدارتی انتخاب کامرحلہ آیا تو پی پی پی کے فضل الہٰی چودھری کے مقابلہ میں ان کو اپوزیشن کے مشترکہ امیدوار کے طورپر نامزد کیاحیات شیرپاﺅ قتل کیس میں گرفتارہوئے مگرعدالتی حکم پر رہا کردیئے گئے جسکے بعد انہوں نے پارٹی کارکنوں کے کیسز لڑنے شروع کیے نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی کے پلیٹ فارم سے سردار شیرباز خان مزاری اوربیگم نسیم ولی خان کے ساتھ بھی متحرک کردار ادا کیا 1977ءکے انتخابات میں صوبائی اسمبلی کے امیدوار تھے مگر پی این اے نے قومی اسمبلی کے الیکشن میںدھاندلی کے الزامات کے بعد صوبائی اسمبلی کے الیکشن کابائیکاٹ کردیا یو وہ اپنی زندگی کا آخری الیکشن لڑنہ سکے یہ نامور رہنما 13ستمبر 1977ءوفات پاگئے ۔