جمہوریت کی بنیادیں

دنیا کے تمام جمہوری ممالک میں بلدیاتی اداروں کا ایک جامع نیٹ ورک موجود ہے۔ان اداروں کو جمہوریت کی نرسری قرار دیا جاتا ہے۔ پاکستان میں بلدیاتی ادارے جنرل ایوب خان کے دور میں وجود میں آئے۔ بالغ رائے دہی کی بنیاد پر مشرقی اور مغربی پاکستان میں 70ہزار بی ڈی ممبران کا انتخاب کیا گیا۔ایوب خان نے اسے بنیادی جمہوریتوں کا نام دیا۔ تاہم بعد میں اسی پلیٹ فارم کو صدارتی انتخاب کے لئے انتخابی کالج کا درجہ دیا گیا جس کی وجہ سے ان اداروں کی افادیت پر سوالات اٹھنے لگے۔1969میں ایوب خان کی حکومت ختم ہونے کے ساتھ بلدیاتی ادارے بھی ختم ہوگئے۔طویل وقفے کے بعد جنرل ضیاالحق نے 1980کے عشرے میں ملکی تاریخ کے دوسرے بلدیاتی انتخابات کرائے۔تاہم ضیاءدور کے اختتام کے ساتھ ان کے متعارف کئے گئے

 

بلدیاتی ادارے بھی کالعدم ہوگئے۔2002میں جنرل پرویز مشرف نے ملک میں بلدیات کا نظام تیسری بار قائم کیا ۔فرق یہ تھا کہ انہوں نے ضلع، تحصیل اور یونین کونسل کے چیئرمین کا نام بدل کر ناظم رکھا۔مجسٹریسی نظام ختم کردیا اور ضلع میں ڈپٹی کمشنر کو ضلع ناظم کے ماتحت کردیا۔مشرف ہی کے دور میں بلدیاتی اداروں کے انتخابات دوسری بار بھی منعقد ہوئے۔جمہوری حکومت کی بحالی کے بعد بھی بلدیاتی ادارے قائم رہے تاہم اراکین قومی و صوبائی اسمبلی اور بلدیاتی ممبران کے درمیان انتظامی اور مالی اختیارات کی رسہ کشی جاری رہی ۔بلوچستان میں بلدیاتی ادارے اپنی چار سالہ مدت پوری کرکے جنوری 2019، پنجاب اور خیبر پختونخوا کے بلدیاتی ادارے اگست 2019کو تحلیل ہوچکے ہیں

 

جبکہ سندھ کے بلدیاتی ادارے اگست 2020میں اپنی آئینی مدت پوری کرچکے ہیں لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2013کے تحت الیکشن کمیشن بلدیاتی اداروں کی تحلیل کے 120دنوں کے اندر نئے بلدیاتی انتخابات کرانے کا پابند ہے۔یہ امر باعث حیرانگی ہے کہ پاکستان میں غیر جمہوری حکومتیں بلدیاتی ادارے قائم کرتی اور ان کی سرپرستی کرتی رہیں جبکہ منتخب جمہوری حکومتوں نے جمہوریت کی نرسریوں کی کبھی آبیاری نہیں کی۔خیبر پختونخوا حکومت کو الیکشن کمیشن کی طرف سے متعدد بار حلقہ بندیاں مکمل کرکے بلدیاتی انتخابات کروانے کی ہدایات دی جاتی رہی ہیں ۔ابتداءمیں صوبائی حکومت کا موقف رہا ہے کہ سات قبائلی اور چھ نیم قبائلی اضلاع کے صوبے میں انضمام کے بعد بلدیاتی اداروں کے لئے حلقہ بندی کافی محنت طلب کام ہے

 

صوبائی حکومت چاہتی ہے کہ ضم اضلاع سمیت پورے صوبے میں ایک ہی دن بلدیاتی انتخابات ہوں۔صوبائی حکومت نے بلدیاتی اداروں کے ڈھانچے میں بھی کافی تبدیلیاں کی ہیں ضلع کونسل کو سرے سے ختم کرنے کا فیصلہ ہوا ہے۔ شہری علاقوں میں ٹاون کونسل اور نیبرہڈ کونسلوں کےلئے انتخابات ہوں گے جبکہ دیہی علاقوں میں تحصیل اور ویلج کونسل کا نظام رائج ہوگا۔ بعد ازاں صوبائی حکومت نے ایپی ڈیمک اینڈ ایمرجنسی آرڈیننس کے ذریعے بلدیاتی انتخابات دو سال کے لئے موخر کرنے کا فیصلہ کیا۔ حکومت کا موقف ہے کہ عالمی وباءکورونا کا پھیلاﺅ روکنے کے لئے صوبے میں ایمرجنسی نافذ کی گئی ہے۔ تمام وسائل مہلک مرض کے تدارک کے لئے بروئے کار لائے جارہے ہیں

 

صوبہ بھر میں سمارٹ لاک ڈاﺅن کی وجہ سے انتخابات کروانا ممکن نہیں، جبکہ الیکشن کمیشن کا موقف ہے کہ انتخابات دو سال کے لئے موخر کرنا لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2013اور الیکشن ایکٹ2017سے متصادم ہے ۔ نومبر 2019 میں بلدیاتی انتخابات کروانا آئینی ضرورت تھی تاہم نئے آرڈیننس کے نفاذ کے بعد بلدیاتی انتخابات 2022میں ہی منعقد ہوسکیں گے۔ملک بھر میں 44کینٹ بورڈز کے انتخابات بھی تاحال نہیں کروائے جاسکے۔ سینٹ کی قائمہ کمیٹی کو بتایاگیا ہے کہ ملک بھر میں ازسرنوحلقہ بندیوں کا کام رواں ماہ کی 27تاریخ کو مکمل کیا جائے گا اس کے بعد بلدیاتی انتخابات کا شیڈول جاری کیاجاسکتا ہے۔الیکشن کمیشن نے آئندہ بلدیاتی انتخابات متناسب نمائندگی کے قانون کے تحت کرانے کا عندیہ دیا ہے

 

جس کے تحت خواتین اور اقلیتوں کی نشستوں پر بھی براہ راست انتخاب ہوگا۔ تاہم خیبر پختونخوا حکومت کا موقف ہے کہ آئین میں اٹھارویں ترمیم کے بعد صوبوں کو نچلی سطح پر منتخب اداروں کے قیام کا اختیار حاصل ہے۔ لوکل گورنمنٹ ایکٹ اور الیکشن ایکٹ میں بھی الیکشن کمیشن کو صوبائی حکومت سے مشاورت کے بعد انتخابی شیڈول مرتب کرنے کا پابند بنایاگیا ہے جب کسی صوبے کے حالات انتخابات کے لئے سازگار نہ ہوں یا حکومت وسائل کی کمی یا دیگر وجوہات کی بناءپر انتخابات کروانے کی پوزیشن میں نہ ہو۔ تو الیکشن کمیشن اسے انتخابات کروانے پر مجبور نہیں کرسکتا۔اضلاع، تحصیل اور یونین کونسل کی سطح پر عوامی نمائندگی نہ ہونے کی وجہ سے ترقی کا عمل بھی متاثر ہوا ہے۔ حکومت اور سیاسی جماعتیں جمہوری عمل کا استحکام چاہتی ہیں تو بلدیاتی ادارے بحال کرنے کے لئے قومی سطح پر اتفاق رائے پیدا کرنا ہوگا۔